Thursday, 4 February 2016

ٹائم مشین


اس دور میں ابھی ٹائم مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی جس میں بیٹھ کر چودہ سو سال پیچھے جا کر اس دور کے حالات کو دیکھا جا سکتا اور اس زمانے کے جھگڑے موجودہ دور میں لائے جا سکتے. یعنی بہت پسماندہ دور تھا. (آج کل تو بہت سی ٹائم مشینیں ایجاد ہوچکی ھیں ) میں اس وقت پانچ چھ سال کا تھا جیسا کہ ایک بار پہلے بتایا کہ میں اس دور میں اپنے ننھیال میں رہتا تھا بہت ہی پسماندہ چھوٹا سا پنڈ تھا جہاں بجلی بھی نہیں آئی تھی اس لئے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کیلئے بہت سا وقت ہوتا تھا. پنڈ کی مسیت کے مینار پر چڑھ کر اذان دی جاتی تھی لاؤڈ سپیکر بجلی سے چلتا ہے بجلی تھی نہیں اس لئے لاؤڈ سپیکر بھی نہیں تھا اس لئے سب مسلمان ہی تھے سب ہی آہستہ آہستہ آواز میں باتیں کرتے اللہ کی باتیں اللہ کے رسول ص کی باتیں . مولبی صاحبان کے پاس فتووں کی کتابیں نہیں تھیں صرف قرآن پاک تھا اس لئے مولبی صاحبان کے مالی حالات بھی ماٹھے تھے . جمعرات کے جمعرات حلوے پر ختم دے کر جلوہ بچتا تھا یا پھر نکاح وغیرہ پڑھانے اور جنازہ پڑھانے کے پیسے ملا کرتے تھے لیکن چھوٹے سے پنڈ میں لوگ مرتے بھی کم کم تھے اس لئے جنازے پڑھانے کے مواقع بھی کم ھوتے تھے . میلاد وغیرہ ابھی شروع نہیں ہوئے تھے اس دور میں. آج کا دور تو بہت سنہری دور ہے جنازے بھی بہت میلاد بھی بہت. بلکہ آج کے دور میں تو لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے بھی بہت فوائد ھیں. موبائل ، کمپیوٹر یا ٹی وی وغیرہ کا تصور بھی نہیں تھا چنانچہ جنت ماں باپ کے قدموں تلے تلاش کی جاتی تھی خودکش جیکٹ میں نہیں. وہ پنڈ میری کائنات تھی میرا گلوبل ویلیج تھا . مجھے کسی مدرسہ میں کسی مولوی صاحب کے پاس رب جی کی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا. جیسے پہلے بھی بتایا کہ ایک اماں جی سے رب جی کی کتاب کا علم حاصل کیا. ان اماں جی جیسا قرآن پاک کسی سے نہیں سنا آج تک. ایک ایک لفظ روح میں اترتا محسوس ہوا کرتا تھا. میرے بچپن میں قرآن پاک کا وہ علم میری زندگی بھر کا علم بن گیا . انجانی سی عربی زبان کے ایک ایک لفظ کا مطلب جیسے میرے دل کو پہلے ہی معلوم تھا . وہ تمام الفاظ اور ان کے مطالب نے مجھے کچھ اور سمجھنے کی گنجائش ہی نہیں رھنے دی تھی . وہ اماں جی مجرم کے دنوں کا سوگ خاموشی سے منایا کرتی اور نبی ص کے چاروں دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجایا کرتیں. ان کو سب سے محبت تھی عقیدت تھی پنڈ کے باقی لوگ بھی کم و بیش ایسی ہی سوچ والے تھے . اس پنڈ میں موجودہ زمانے کے تمام کافر اکٹھے رہتے تھے لیکن اس وقت تک کافر نہیں تھے ایک دوسرے کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے کم علم تھے مدرسے سکول کی تعلیم سے کوسوں دور تھے اس لئے آپس میں بھائی بھائی تھے. پھر سائنس نے ترقی کی لوگ باشعور ہونے لگے ٹائم مشینیں ایجاد ہونے لگیں لوگ صدیوں پرانے سفر کرنے لگے. سفر سے واپس آکر ماضی کے حالات کی تصاویر لوگوں کو دکھانے لگے لوگوں کی آنکھوں میں خون اترنے لگا . ان واقعات کی کتابیں چھپنے لگیں. منبر سٹیج نئے انداز سے سجنے لگے. جنازے پڑھانے سے زیادہ فائدہ مند کاروبار چل پڑے منبر کے دائیں بائیں کلاشنکوف بردار مومن کھڑے ہونے لگے. کتابوں کے ڈھیر سامنے رکھ کر حوالے دئیے جانے لگے. قرآن پاک کو الماریوں میں قید کر دیا گیا تھا چنانچہ کتابوں نے سٹیج پر جگہ بنا لی اور یوں گلشن کا ایسا کاروبار چلا جس نے گلشن کو ہی جلانا شروع کر دیا. . . . . کافر کافر کافر کافر کافر. . . تڑاتڑ. تڑاتڑ. تڑاتڑ. تڑاتڑ. ھر طرف یہی گونج سنائی دینے لگی . باہر سے امدادیں آنے لگی. مینار پر چڑھ کر اذان دینے والا بلٹ پروف لینڈ کروزر پر چڑھ کر مسجد کی طرف ، فلاح کی طرف بلانے کی بجائے جنت جنت جنت کے ھوکے دینے لگا. اور آج . . . . . ھر طرف کافر ہی کافر. . . مسلمان ایک بھی نہیں .