Sunday, 17 January 2016

ٹارزن

ٹارزن ایک خیالی شخصیت ہے جو پہلی بار 1912ء (میگزین میں 1912ء جبکہ ناول 1914ء میں شائع ہوا) میں امریکی مصنف  ایڈگر رائس بورس (1875 – 1950) کی کہانی “بندروں کا ٹارزن”  میں منظرِ عام پر آئی جس نے اس وقت بہت مقبولیت حاصل کی، بعض لوگ اسے خیالی شخصیات میں سے سب سے مقبول شخصیت قرار دیتے ہیں، کہانی کی اشاعت کے بعد ٹارزن فلموں، بچوں کی کہانیوں، ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں، تیل کے اشتہاروں، بچوں کے کھلونوں، کپڑوں اور سپورٹس جوتوں میں نظر آیا، اس شخصیت پر 1918ء سے لیے کر 1999ء تک 88 فلمیں بنائی جا چکی ہیں، یہ شخصیت اتنی مقبول ہوئی کہ بعض لوگ اسے ایک حقیقی کردار سمجھنے لگے، ٹارزن پر امریکی مصنف فلپ فارمر  (پیدائش 1918ء) جو سائنس فکشن کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں نے ایک نظریہ وضع کیا جس کے مطابق برطانیہ میں 13 دسمبر 1795ء کو ورلڈ نیوٹن  نامی شہر پر ایک شہابِ ثاقب گرتا ہے جس کے اثر سے حادثہ کے قریب رہنے والے لوگوں میں وراثتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، یہ تبدیلی ان لوگوں کی آگے کی نسل میں غیر طبعی طاقتیں پیدا کردیتی ہے، فارمر کے مطابق اس شہر کے لوگوں کی نسل سے غیر طبعی طاقتوں کی حامل سب سے مشہور شخصیات ٹارزن، شارلک ہولمز اور جیمز بانڈ ہیں، یہ درست ہے کہ مذکورہ تاریخ کو اس چھوٹے سے شہر میں واقعی ایک شہابِ ثاقب گرا تھا تاہم اکثر لوگ فارمر کے نظریہ کو صرف ایک فرضی مفروضہ قرار دیتے ہیں جسے انہوں نے اپنی کہانیوں میں استعمال کیا۔ 
۱۹۱۲ میں شائع ہونے والا ناول
“بندروں کا ٹارزن” کہانی کے مطابق ٹارزن جس کا اصل نام جان کلایٹن ہے ایک امیر برطانوی کا بیٹا ہے، اس کے والدین افریقہ کے ساحلوں کے قریب ایک بحری جہاز میں ہوتے ہیں، جہاز کا عملہ قبطان کے خلاف ہوجاتا ہے اور جہاز میں لڑائی شرع ہجاتی ہے جس کے نتیجے میں جہاز ایک افریقی ساحل کے کنارے جا لگتا ہے، اس کے بعد جبکہ وہ ابھی شیر خوار بچہ ہوتا ہے اس کے والدین مر جاتے ہیں، “مانجانی”  نسل کا ایک بڑا بندر اس کا خیال رکھتا ہے اور اسے “ٹارزن” کا نام دیتا ہے جس کا مطلب بندروں کی زبان میں “سفید چمڑی” ہے، جو بندر ٹارزن کو پالتے ہیں وہ ایک خیالی نسل کے بندر ہوتے ہیں جن کا حقیقت میں علمی تصنیفات میں کوئی وجود نہیں، جب ٹارزن جوان ہوتا ہے تو وہ “جین” نامی ایک امریکی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے، جب جین جزیرہ چھوڑ کر جاتی ہے تو ٹارزن اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے، تلاش کا خاتمہ جین اور ٹارزن کی شادی پر ہوتا ہے، ان کا ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام وہ “کوراک” رکھتے ہیں، وہ کچھ عرصہ لندن میں رہتے ہیں پھر شہر کی منافقت بھری زندگی سے دور واپس جزیرے کی قدرتی زندگی میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں، جزیرے پر واپسی کے بعد کہانی ان کے “دائمی حیات” پا جانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ابھی بھی بقیدِ حیات ہیں جیسا کہ “بندروں کا ٹارزن” میں آیا ہے۔
ٹارزن کی کہانی لکھنے سے پہلے مصنف اپنی زندگی میں کئی ناکام مرحلوں سے گزرا، 1895ء میں میچگن سے عسکری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ گھوڑوں کی نمبر 17 ٹیم کا ممبر بنا جس کا کام شمالی امریکہ کے اصل رہائشیوں “اباٹچی” کا پیچھا کرنا تھا، لیکن اس کی عسکری زندگی اس وقت اچانک ختم ہوگئی جب اس کے دل کے ایک وال میں خرابی پائی گئی، فوج چھوڑنے کے بعد اس نے کئی دوسرے کام کئے، آخر کار سٹیشنری فروخت کرنے والا بن گیا، ایک دن جب وہ اپنی کمپنی جس کے لیے وہ کام کرتا تھا کا مال فروخت کرنے کے لیے ایک دکان والے کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک میگزین پر پڑی جس میں تصویری کہانیاں چھپی تھیں، مصنف کی یاداشتوں کے مطابق اس نے با آواز بلند اس میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا تھا “اگر لکھاری ایسی خرافات لکھنے کے لیے رقم وصول کر سکتے ہیں تو میں اس سے اچھی خرافات لکھ سکتا ہوں۔
مصنف ایڈگر رائس بورس
کہانی کے واقعات جو ٹارزن کی جانوروں اور جزیرے کے اصل باشندوں سے لڑائی سے بھرپور ہے سال 1908ء کے آس پاس وقوع پذیر ہوتے ہیں، مصنف ٹارزن کو ایک ایسے انسان کی شکل میں پیش کرتا ہے جو کسی حد تک ایک قدیم یونانی بت سے مشابہت رکھتا ہے اور اس کی آنکھوں کا رنگ بھورا ہوتا ہے، وہ اپنے بالوں کو وقتاً فوقتاً ایک چھری سے کاٹتا رہتا ہے جو اس کا باپ مرنے سے پہلے چھوڑ گیا تھا جب وہ شیر خوار بچہ تھا، اس کی شخصیت وحشی ہوتی ہے، بحری جہاز میں لڑائی کی وجہ سے جب بحری جہاز ایک افریقی جزیرے پر لگتا ہے، تو اس کے والدین اس جزیرے پر ایک جھونپڑی بناتے ہیں جس میں جان کلایٹن یعنی ٹارزن پیدا ہوتا ہے، ایک سال کے بعد اس کی ماں مرجاتی ہے اور اس کا باپ ایک بڑے بندر کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔
اگرچہ ٹارزن سلسلے کی ابتدائی کہانیوں اور فلموں نے منقطع النظیر کامیابیاں حاصل کیں لیکن بعد کا کام ابتدائی کہانیوں اور فلموں کے درجہ تک کبھی نہیں پہنچ سکا، ساٹھ کی دہائی کے آخر اور ستر کی دہائی کے شروع میں بعض لوگوں نے ٹارزن کی کہانی کو سرے سے ایک انتہا پسند کہانی قرار دیا جس کی وجہ بعض کے خیال میں ٹارزن کا نام ہی ہے جس کا مطلب بندروں کی خیالی زبان میں “سفید چمڑی والا” بنتا ہے، جبکہ بعض کے خیال میں کہانی میں سفید کو کالے افریقیوں سے برتر جبکہ افریقیوں کو وحشی دکھایا گیا ہے، اس کے علاوہ خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی بعض تنظیموں نے ٹارزن کی شخصیت کو مرد کی عورت پر برتری کا ایک کردار قرار دیا۔

ٹارزن اور مشرقِ وسطی کی سیاست
اسرائیلی ٹارزن کے ایک ناول کا ٹائٹل
پچاس کی دہائی میں ٹارزن کی کہانی کو عرب اسرائیل تنازعہ میں استعمال کیا گیا، اس زمانے میں اسرائیل میں ٹارزن کی کہانیاں لوگوں کا جنون بن گئیں، اصل کہانی کو تبدیل کردیا گیا اور اصل سے مختلف ٹارزن کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں ٹارزن زمین پر خلائی حملہ آوروں کے حملے روکنے کے لیے دیگر سیاروں میں جاتا ہے، بعض اوقات وہ وقت کا سفر کرکے ماضی میں چلا جاتا ہے اور قرونِ وسطی کے جنگجوؤں سے لڑتا ہے، اسرائیل میں شائع ہونے والے ٹارزن سلسلہ میں دکھایا گیا کہ کس طرح ٹارزن برطانوی دور میں غیر شرعی یہودی مہاجرین کو فلسطین میں داخل ہونے میں مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے انگریز اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں، ایک کہانی میں ٹارزن سویس میں مصری فوج کا حصار توڑتا ہے اور کئی مصری فوجیوں کو قتل کردیتا ہے، ایک اور کہانی میں ٹارزن ایک نازی – مصری سازش کو ناکام بناتا ہے جس کا مقصد افریقہ اور پوری دینا پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔
دوسری طرف مصر اور سوریا (شام) میں بھی اس سے ملتی جلتی کہانیاں شائع ہوئیں اور ایک ایسا ٹارزن منظرِ عام پر آیا جو اسرائیلی ٹارزن سے قطعی مختلف تھا، یہ ٹارزن نہ صرف مسئلہ فلسطین کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا بلکہ یہودیوں سے جنگ بھی کرتا تھا۔
ٹارزن کا سب سے پہلا عربی سلسلہ تیس کی دہائی میں لبنان میں شروع ہوا، دمشق میں ٹارزن کی کہانیوں کے 20 سے زائد سلسلے شروع ہوئے، ان کہانیوں کے مصنف سوریا کے کمال ربقی تھے جو ساٹھ کی دہائی میں صوت دمشق (وائس آف دمشق) کے کاسٹر تھے، اسرائیلی ٹارزن کے جواب میں شروع کیا گیا ٹارزن کا یہ سلسلہ یمن سے مصر تک تمام عرب ملکوں میں انتہائی مقبول ہوا، ایک تاریخی تضاد یہ ہے کہ ان کہانیوں کے مصنف کمال ربقی کو بعد میں اسرائیل سے ہمدردی کے جرم میں سوریا کے حکام نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا!!۔
ٹارزن کی چیخ
ٹارزن کی شخصیت اپنی ایک خاص چیخ کی وجہ سے مشہور تھی جو تمام وحشی جانوروں کو ڈرا دیتی تھی، یہ چیخ پہلی بار ٹارزن کی اس فلم میں شامل کی گئی جس میں جونی ویزمل (1904 – 1984) نے ٹارزن کا کردار ادا کیا تھا، جونی ایک تیراک تھا، اس کے پاس تیراکی کے چار اولمپک میڈل تھے، اس نے 12 مختلف فلموں میں ٹارزن کا کردار ادا کیا، ٹارزن کی چیخ پر اختلاف پایا جاتا تھا کہ یہ جونی کے گلے کا کمال ہے یا ساؤنڈ افیکٹ کا کمال ہے، بعض کا خیال تھا کہ چیخ در حقیقت کتے، وائلن اور اوپرا سنگر کی آواز کا مکسچر ہے جبکہ بعض کی رائے یہ تھی کہ تین لوگ طویل ریاض کے بعد ٹارزن کی یہ چیخ نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو ایک طرح سے ٹارزن کا ٹریڈ مارک بن گئی ہے، آج بھی ٹارزن سے متعلق ہر کام میں یہی چیخ استعمال کی جاتی ہے.
پیرس اولمپک میں 4 سونے کے میڈل حاصل کرنے کے بعد 1929ء میں جونی نے سپورٹس سے متعلق مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات میں کام کیا، 1932ء میں اس نے فلم “ٹارزن، بندر آدمی” میں ٹارزن کا کردار ادا کیا، اس نے یہ کردار اس قدر مہارت سے ادا کیا کہ لوگ تو لوگ کہانی کا مصنف ایڈکر رائس بورس بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا، ستر کی دہائی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں جونی نے ٹارزن کی مشہور چیخ پر سے پردہ اٹھایا، اس نے کہا کہ یہ آواز اونچی صوتی تہہ کے حامل تین گانے والوں کی ہے اور اس میں اس کے گلے کا کوئی کمال نہیں ہے۔
بندروں کی زبان
ایڈگر رائس بورس کی کہانی میں بندر ایک خیالی نسل کے ہوتے ہیں اور ان کی ایک خاص قسم کی خیالی زبان بھی ہوتی ہے، مانجانی بندروں کی اس نسل کا نام تھا جو ٹارزن کو گود لیتے ہیں ساتھ ہی یہ ایک تصوراتی مانجانی زبان کا نام بھی تھا جو مانجانی نسل کے بندر بولتے تھے، ذیل میں اس تصوراتی زبان کی کچھ مثالیں ہیں۔

ٹارزن: سفید جلد
مانجانی: بڑا بندر
تار مانجانی: بڑا سفید بندر
جومانجانی: کالا بڑا بندر
بولجانی: گوریلا
نالا: اوپر
تاند نالا: نیچے

اصل کہانی میں مصنف گوریلا اور مانجانی نسل کے بندروں میں فرق کرتا ہے مگر زیادہ تر فلموں نے اس نقطہ کو نظر انداز کیا اور مانجانی کی بجائے گوریلا کو ہی ٹارزن کی فیملی دکھایا۔
ٹارزن اور والٹ ڈیزنی
18 جون 1999ء والٹ ڈیزنی نے ٹارزن پر ایک کارٹون فلم پیش کی جن نے پوری دنیا میں 448 ملین ڈالر کا بزنس کیا، اگرچہ فلم ایڈگر رائس بورس کی اصل کہانی پر مبنی تھی تاہم کمپنی نے کچھ تبدیلیاں کیں جن میں کچھ یہ ہیں

– ٹارزن کا باپ ایک بڑے بندر کی بجائے ایک چیتے کے ہاتھوں مارا جاتا ہے
– فلم میں گوریلا نسل کے بندروں کو دکھایا جاتا ہے حالانکہ اصل کہانی میں مانجانی نامی تصوراتی بندر ہوتے ہیں جو گوریلا سے مختلف ہیں۔
– فلم میں بحری جہاز جس میں ٹارزن کے والدین ہوتے ہیں تباہ ہونے کی وجہ سے جزیرے سے جالگتا ہے نا کہ جہاز پر لڑائی کی وجہ سے جیسا کہ اصل کہانی میں ہے۔
– فلم میں چیتے ٹارزن کے اصل دشمن ہوتے ہیں جبکہ اصل کہانی میں شیر ہوتا ہے.
– فلم میں جزیرے کے اصل رہائشی افریقیوں کا کوئی کردار نہیں جبکہ اصل کہانی میں متنازعہ افریقی قبائل کہانی کا مرکزی کردار ہوتے ہیں۔

والٹ ڈیزنی کی تیار کردہ اس کارٹون فلم کو بہترین گانے “تم میرے دل میں رہوگے کے زمرے میں آسکر ایوارڈ برائے سال 2000 سے نوازا گیا جبکہ اسی گانے کو اسی سال گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ملا۔
ٹارزن کی تصنیفات
سال 1912ء سے 1941ء تک ایڈگر رائس بورس (1875 – 1950) نے ٹارزن کی کہانیوں پر مبنی 20 سے زائد سلسلے لکھے، ساٹھ کی دہائی میں کچھ دیگر لکھاریوں نے 1964ء سے لے کر 1965ء تک ٹارزن پر 5 نئی کہانیاں لکھیں لیکن یہ کہانیاں شائع نہ ہوسکیں کیونکہ کاپی رائٹ کے تحت انہیں غیر قانونی سمجھا گیا اور اصل ناشر نے جس کے پاس نشر کے حقوق تھے مصنفین پر کیس کردیے، اگرچہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں ٹارزن کی کہانی کے کاپی رائٹ حق کی مدت تمام ہوچکی ہے تاہم کہانی اور اس سے متعلقہ دیگر مصنوعات پر کاپی رائٹ یورپی یونین میں 2021ء تک محفوظ ہے، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اصل کہانی سے تبدیل شدہ کہانیاں جو اسرائیل اور عرب ممالک میں شائع ہوئیں وہ قانونی نہیں تھیں اور انہیں شائع کرنے والے اداروں نے ایڈگر رائس بورس اور ناشر سے اجازت حاصل نہیں کی تھی۔

1972ء میں ٹارزن پر امریکی مصنف فلپ فارمر (پیدائش 1918ء) جو سائنس فکشن کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں نے ایک نظریہ وضع کیا جس کے مطابق برطانیہ میں 13 دسمبر 1795ء کو ورلڈ نیوٹن نامی شہر پر ایک شہابِ ثاقب گرتا ہے جس کے اثر سے حادثہ کے قریب رہنے والے لوگوں میں وراثتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، یہ تبدیلی ان لوگوں کی آگے کی نسل میں غیر طبعی طاقتیں پیدا کردیتی ہے جن میں ٹارزن کے اجداد بھی شامل تھے فارمر نے ٹارزن کی شخصیت پر متعدد کہانیاں لکھیں تاہم انہوں نے ٹارزن کے نام کا کبھی تذکرہ نہیں کیا تاکہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں، 2000ء میں نیوزی لینڈ کے  نیگل کوکس (پیدائش 1951ء) نے ٹارزن بریسلی کہانی لکھی جس میں ٹارزن اوربریسلی کی شخصیت کا امتزاج پیش کیا گیا تھا لیکن اس پر کیس کردیا گیا اور 2004ء میں کتاب کی اشاعت کو روک دیا گیا۔
ٹارزن اور ناقدین
ٹارزن کی کہانی کو مغرب میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کہیں انتہا پسندی کے مخالفین نے اس شخصیت میں انتہا پسندی کا 
عنصر ڈھونڈ نکالا تو کہیں آزادی نسواں کے علمبرداروں نے اس میں مرد کی عورت پر برتری کا پہلو نکال لیا، اسی طرح عرب اور اسلامی دنیا میں بھی یہ کہانی تنقید کی لہر سے نہ بچ سکی، عرب اور اسلامی ناقدین کے مطابق یہ کہانی کسی نہ کسی طرح بچوں کو لڑنے کی ترغیب دیتی ہے اور انہیں ایک ایسے اندازِ سلوک سے روشناس کراتی ہے جو عرب اور اسلامی دنیا کی روایات سے کافی دور ہے۔
سال 2004ء کے وسط میں خلیج تعاون کونسل کے ذیلی ادارے “مؤسسة الإنتاج البرامجي المشترك” نے عراقی ہدایتکار ثامر الزیدی کو “ابنِ طفیل” (وفات 1185ء مراکش) کی “حی بن یقظان” پر مبنی “ابن الغابہ” (جنگل کا بیٹا) نامی کارٹون فلم بنانے کے لیے کہا۔
اکثر عرب ناقدین کا خیال ہے کہ حی بن یقظان کی کہانی میں ایک گہرا فلسفہ ہے جو ہالی ووڈ اور والٹ ڈیزنی کے ٹارزن میں نظر نہیں آتا، بعض کا خیال ہے کہ ابنِ طفیل اس کتاب (حی بن یقظان) میں انسانیت کے ارتقاء کا خلاصہ پیش کرتا ہے، جنگلوں اور غاروں میں رہنے والے انسان سے ارتقاء جو دیکھتے، مشاہدہ کرتے، نقل کرتے، سیکھتے اور دریافت کرتے ہوئے زراعت اور پھر مشین کی اختراع تک پہنچتا ہے۔
ہدایتکار ثامر الزیدی کے مطابق والٹ ڈیزنی کی تیار کردہ زیادہ تر کارٹون فلموں کی کہانیاں حی بن یقظان کی کہانی سے لی گئی ہیں، حی بن یقظان کا 1341ء میں عبرانی زبان میں ترجمہ ہوا اور اس سے یہ کچھ دیگر یورپی زبانوں میں منتقل ہوئی، 1671ء میں اس کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا اور پھر ہالینڈ کی زبان میں ترجمہ ہوکر یہ 1672ء میں شائع ہوئی، 1674ء میں اس کا انگریزی ترجمہ نمودار ہوا جبکہ ایک اور انگریزی ترجمہ 1686ء میں منظرِ عام پر آیا جسے جارج ایشویل نے کیا تھا، اسی طرح مزید متعدد تراجم منظرِ عام پر آئے، جرمن زبان میں یہ کہانی 1726ء اور پھر 1783ء میں منظرِ عام پر آئی جبکہ پہلا فرانسیسی ترجمہ 1900ء میں منظرِ عام پر آیا، اس فلسفیانہ کہانی نے بہت سارے مغربی ادیبوں کو متاثر کیا جیسے انگریز مصنف ڈینیل ڈیفو (1660 – 1731) جو اس کہانی کے مرکزی پلاٹ کو اپنی مشہور ترین تصنیف “رابنسن کروزو” میں استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ دونوں کہانیاں ابتدائی انسان کے ترقی کے سفر کو بیان کرتی ہیں، تقابلی ادب کے بہت سارے ماہرین کو یقین ہے امریکی مصنف ایڈگر رائس بورس نے ضرور حی بن یقظان کی کہانی پڑھی ہوگی اور اس سے کسی حد تک متاثر ہوا ہوگا، اس خیال پر یقین رکھنے والے کچھ ناقدین اور تحقیقی کتب


– محمد التونجی اپنی کتاب “دراسات فی الادب المقارن” (تقابلی ادب پر تحقیق) – دار العروبہ للطباعہ – حلب – 1982ء۔
– حسن محمود عباس اپنی کتاب “حی بن یقظان و روبنسون کروزو – دراسہ مقارنہ” (حی بن یقظان اور رابنسن کروزو – تقابلی تحقیق) – المؤسسہ العربیہ للدراسات والنشر – بیروت – الطبعہ الاولی (پہلا ایڈیشن) – 1983ء۔

Tuesday, 5 January 2016

نپولین نے اسلام قبول کر لیا تھا

اسلامی تعلیمات نے عظیم فرانسیسی مدبر وجرنیل کو اپنا گرویدہ بنا لیا * یہ جولائی 1798ء کا واقعہ ہے جب فرانسیسی فوج کے کمانڈر کی حیثیت سے نپولین بونا پارٹ نے مصری شہر،اسکندریہ پہ قدم دھرے۔فرانسیسی اس لیے مصر آئے تھے تاکہ علاقے میں برطانوی اثرورسوخ ختم کر سکیں،نیز ہندوستان سے انگریزوں کی تجارت کو ضعف پہنچائیں۔ نپولین اگست 1799ء تک مصر میں مقیم رہا۔اس دوران وہ فلسطین بھی گیا تاکہ وہاں تعینات برطانوی فوج سے نبردآزما ہو سکے۔کچھ ہی لوگ جانتے ہیں کہ دوران قیام مصر نپولین بونا پارٹ نے (کم از کم ظاہری طور پہ)اسلام قبول کر لیا تھا۔ مسلمان ہونے کی خبر بے بنیاد نہیں…یہ 6دسمبر1798ء کو مشہور فرانسیسی اخبار ’’Gazzette National ou Le Moniteur Universel‘‘میں شائع ہوئی۔یہ اخبار پورے یورپ میں فرانسیسی حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے مشہور تھا۔ درج بالا اخبار میں چھپنے والی خبر افشا کرتی ہے کہ نپولین نے اسلام قبول کر لیا تھا۔اور یہ کہ اس کا اسلامی نام ’’علی نپولین‘‘رکھا گیا۔سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں عظیم جرنیل ومدبر سمجھا جانے والا نپولین بونا پارٹ پھر بطور مسلمان کیوں مشہور نہیں ہوا؟اس سوال کا جواب نپولین کی مذہبی زندگ
ی میں پوشیدہ ہے۔ اس کے والدین کیتھولک عیسائی تھے۔سو اس کی پرورش بھی رومن کلیسا کی مذہبی روایات کے مطابق ہوئی۔تاہم وہ جوانی میں ’’موحد‘‘(Deist)بن گیا۔ عیسائی دنیا میں یہ اصطلاح ان عیسائیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ایمانی عقیدے نہیں عقل اور فطری مظاہر کی بنا پہ ’’ایک خدا‘‘کی موجودگی تسلیم کر لیں۔ یہ عیسائی موحد اس لحاظ سے روایتی عیسائیوں سے مختلف ہیں کہ یہ بائیبل کے غلطیوں سے پاک ہونے کے عقیدے (Biblical inerrancy) اور عقیدہ تثلیث(یہ کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیؑ اور حضرت جبرائیلؑ بھی خدائی میں شامل ہیں)پہ یقین نہیں رکھتے۔نیز وہ خلاف العقل کرشموں اور معجزوں سے بھی انکار کرتے ہیں۔ گویا کم ازکم نپولین بے خطا بائیبل اور تثلیث عقائد تسلیم نہ کرنے کے باعث فکری طور پہ مسلمانوںکے زیادہ قریب تھا۔مزیدبرآں وہ سمجھتا تھا کہ جزا و سزا کا مذہبی عقیدہ معاشرے میں نظم و ضبط برقرار رکھتا اور شہریوں کو جرائم کرنے سے روکتا ہے۔سو وہ مذہب کی افادیت کا قائل تھا۔ نپولین مصر پہنچا تو سیاسی و عسکری رہنمائوں کے علاوہ وہ علما سے بھی ملا۔بعض اوقات علمائے دین سے اس کی ملاقاتیں کئی گھنٹوں پہ محیط ہوتیں۔اس دوران مختلف مذہبی افکار و مسائل زیر بحث آتے۔انہی ملاقاتوں کے ذریعے نپولین کو اسلام کے متعلق قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔حتی کہ وہ اسلامی فقہ کے بنیادی خدوخال بھی جان گیا جو تب مصر میں رائج تھا۔ مصر پہنچ کر نپولین نے اسلام کا ذکر اچھے الفاظ میںکیا اور نبی کریمﷺ کو تعظیم دی۔دوران قیام جب عید میلاد النبیﷺ کا موقع آیا،تو اس کے حکم پر فرانسیسی فوج نے قاہرہ کی سڑکوں پہ خصوصی پریڈ کا مظاہرہ کیا۔اس موقع پر نپولین نے خود کو ’’حضور اکرم ﷺ کا قابل فرزند‘‘اور ’’اللہ تعالی کا پسندیدہ‘‘قرار دیا۔اس سے قبل اگست 1789ء میں وہ مصر کے شیخ السلام کو خط لکھ کر بتا چکا تھا: ’’میں تمام دانشوروں کوساتھ ملا کر دنیا میں قرآن کے اصولوں پہ مبنی ایک منظم حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔صرف قرآن پہ عمل کر کے ہی انسان سچی خوشیاں پا سکتا ہے۔‘‘(بحوالہ:Bonaparte et L'Islam : d'après les documents Francais et Arabes از Christian Cherfils ) نپولین کے درج بالا قول و فعل سے یہی لگتا ہے کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔تاہم اس کے قریبی ساتھیوں اور جرنیلوں کا بیان ہے کہ اس نے مصر میں قدم جمانے اور سیاسی طاقت پانے کی خاطر مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔مصر سے نپولین کی رخصتی کے بعد اس کے عمل بھی عیاں کرتے ہیں کہ وہ پہلے کے مانند موحد کی زندگی گزارتا رہا۔مسلمان صرف اس لیے ہوا کہ مصری مسلمانوں کا دل جیت سکے۔ مگر بعض شواہد انکشاف کرتے ہیں کہ دین اسلام نے ایک سالہ دور میں نپولین پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔اول رحمت للعالمینﷺ کی حیاتِ مبارکہ نے اسے بہت متاثر کیا۔اسی لیے ممتاز امریکی مورخ،جوان کول(Juan Cole)نے اپنی کتاب’’Napoleon's Egypt: Invading the Middle East‘‘میں لکھا ہے کہ یہ سچ ہے،نپولین دل سے حضرت محمدﷺ کا احترام کرتا تھا۔ دوسرا ثبوت ’’نپولینی کوڈ‘‘(Napoleonic Code) کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے جو بہ حیثیت سول کوڈ فرانس ہی نہیں اکثر یورپی ممالک مثلاً اٹلی،ہالینڈ،بیلجئم،پولینڈ ،جرمنی وغیرہ میں رائج ہوا۔اس کوڈ کی کئی دفعات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ مثال کے طور پر فکر ِاسلام سے استفادہ کرتے ہوئے نپولینی کوڈ میں مملکت کے سبھی شہری قانون کی نظر میں برابر قرار پائے۔ہر شہری کو آزادی رائے کے اظہار کا حق ملا۔وہ جائیدادیں رکھنے کے حقدار بنے اور حکومت کا ان پہ زبردستی قبضہ ناجائز ٹھہرا۔خواتین کو طلاق کا حق مل گیا۔نیز فرانس سے جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ نپولینی کوڈ میں اسلامی فقہ کے مطابق والدین کو بچوں کے نان نفقہ کا پابند بنایا گیا۔اسلامی تعلیم کے زیراثر ہی نپولین اپنے کوڈ میں دادا دادی اور نانا نانی کو یہ حق بھی دینا چاہتا تھا کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو ماں باپ کی ناجائز مارپیٹ سے بچا سکیں تاہم کامیاب نہ ہو سکا۔ غرض عالم ِاسلام میں ایک سالہ قیام کے دوران نپولین بونا پارٹ نے اسلامی تعلیمات سے جو مفید و انسان دوست باتیں پائیں،انھیں بعد ازاں 1804ء میں وضع کردہ اپنے سول کوڈ میں جمع کر دیا۔یہ دین اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارا دین ایک اور لحاظ سے بھی فرانسیسی جرنیل پہ اثرانداز ہوا۔اسلام سے واقف ہونے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سود کی لعنت کے باعث یورپی ممالک غربت،پسماندگی اور بیماریوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔چونکہ برطانیہ سود خوروں کا پشت پناہ تھا،اس لیے بھی وہ انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوا۔نپولین کی بدقسمتی کہ جنگ ِواٹر لو(1815ء)میں سود خور جیت گئے اور اس کی قسمت کا ستارہ غروب ہوا۔ 

منحوس وزیر اعظم

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی نحوست نے یورپ کو نہ بخشا،لندن میں سبز قدم پڑتے ہی پیرس میں قیامت ٹوٹ پڑی۔بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم جس ملک گئے وہاں کوئی نہ کوئی گڑھ بڑھ ہوگئی، مودی کہیں منحوس تونہیں،بھارتی میڈیامیں نئی بحث چھڑگئی ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ آسٹریلیا، کینیڈا، نیپال، چین جرمنی وہ جہاں بھی گئے کوئی نہ کوئی نحوست ہی لے کر گئے۔ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کا ستارہ خود تو چمکا اور وہ وزیراعظم بن گئے لیکن وہ جہاں بھی جاتے ہیں پنوتی یعنی منحوس کہلاتے ہیں۔مودی آسٹریلیا گئے تو وزیراعظم ٹونی ایبٹ کو خود ان کی پارٹی نے کان سے پکڑ کر نکال باہر کیا۔ کینیڈا میں اسٹیفن ہارپر 10 سال سے وزیراعظم تھے۔ مودی کا وہاں پہنچنا تھا کہ ان کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ مودی نیپال پہنچے تو وہاں وزیراعظم سوشیل کوئرالہ کو فارغ کر دیا گیا۔ چین پہنچے تو وہاں کی معیشت زوال کا شکار ہونے لگی۔جرمن کمپنی واکس ویگن دنیا کی سب سے بڑی کار بنانے والی کمپنی تھی ۔ مودی جرمنی پہنچے تو یہی کمپنی سب سے بڑی دھوکے باز کمپنی قرار پائی۔ دبئی گئے تو وہاں کے بادشاہ کا بیٹا فوت ہو گیا اور پاکستان میں آمد کے بعد زلزلہ ! آخر مودی بہار پہنچے،40 بار انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور الیکشن میں بی جے پی کی 40 ہی نشستیں کم ہو گئیں۔ دووز قبل مودی نے یورپ میں قدم رکھا تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ پیرس کے 7مقامات کو ایک ساتھ دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے مگر مودی کی نحوست نے یورپ کو بھی نہ بخشا اور ان کے لندن میں قدم رنجا فرمانے کے چند گھنٹوں بعد ہی فرانس میں قیامت ٹوٹ پڑی جہاں دہشتگردوں نے پیرس کے 7مقامات کو خودکش حملوں بم دھماکوں اور فائرنگ کا نشانہ بنایا ان حملوں میں 178افراد ہلاک اور 200سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مودی واقعی منحوس ہیں ۔