Tuesday, 5 January 2016

نپولین نے اسلام قبول کر لیا تھا

اسلامی تعلیمات نے عظیم فرانسیسی مدبر وجرنیل کو اپنا گرویدہ بنا لیا * یہ جولائی 1798ء کا واقعہ ہے جب فرانسیسی فوج کے کمانڈر کی حیثیت سے نپولین بونا پارٹ نے مصری شہر،اسکندریہ پہ قدم دھرے۔فرانسیسی اس لیے مصر آئے تھے تاکہ علاقے میں برطانوی اثرورسوخ ختم کر سکیں،نیز ہندوستان سے انگریزوں کی تجارت کو ضعف پہنچائیں۔ نپولین اگست 1799ء تک مصر میں مقیم رہا۔اس دوران وہ فلسطین بھی گیا تاکہ وہاں تعینات برطانوی فوج سے نبردآزما ہو سکے۔کچھ ہی لوگ جانتے ہیں کہ دوران قیام مصر نپولین بونا پارٹ نے (کم از کم ظاہری طور پہ)اسلام قبول کر لیا تھا۔ مسلمان ہونے کی خبر بے بنیاد نہیں…یہ 6دسمبر1798ء کو مشہور فرانسیسی اخبار ’’Gazzette National ou Le Moniteur Universel‘‘میں شائع ہوئی۔یہ اخبار پورے یورپ میں فرانسیسی حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے مشہور تھا۔ درج بالا اخبار میں چھپنے والی خبر افشا کرتی ہے کہ نپولین نے اسلام قبول کر لیا تھا۔اور یہ کہ اس کا اسلامی نام ’’علی نپولین‘‘رکھا گیا۔سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں عظیم جرنیل ومدبر سمجھا جانے والا نپولین بونا پارٹ پھر بطور مسلمان کیوں مشہور نہیں ہوا؟اس سوال کا جواب نپولین کی مذہبی زندگ
ی میں پوشیدہ ہے۔ اس کے والدین کیتھولک عیسائی تھے۔سو اس کی پرورش بھی رومن کلیسا کی مذہبی روایات کے مطابق ہوئی۔تاہم وہ جوانی میں ’’موحد‘‘(Deist)بن گیا۔ عیسائی دنیا میں یہ اصطلاح ان عیسائیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ایمانی عقیدے نہیں عقل اور فطری مظاہر کی بنا پہ ’’ایک خدا‘‘کی موجودگی تسلیم کر لیں۔ یہ عیسائی موحد اس لحاظ سے روایتی عیسائیوں سے مختلف ہیں کہ یہ بائیبل کے غلطیوں سے پاک ہونے کے عقیدے (Biblical inerrancy) اور عقیدہ تثلیث(یہ کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیؑ اور حضرت جبرائیلؑ بھی خدائی میں شامل ہیں)پہ یقین نہیں رکھتے۔نیز وہ خلاف العقل کرشموں اور معجزوں سے بھی انکار کرتے ہیں۔ گویا کم ازکم نپولین بے خطا بائیبل اور تثلیث عقائد تسلیم نہ کرنے کے باعث فکری طور پہ مسلمانوںکے زیادہ قریب تھا۔مزیدبرآں وہ سمجھتا تھا کہ جزا و سزا کا مذہبی عقیدہ معاشرے میں نظم و ضبط برقرار رکھتا اور شہریوں کو جرائم کرنے سے روکتا ہے۔سو وہ مذہب کی افادیت کا قائل تھا۔ نپولین مصر پہنچا تو سیاسی و عسکری رہنمائوں کے علاوہ وہ علما سے بھی ملا۔بعض اوقات علمائے دین سے اس کی ملاقاتیں کئی گھنٹوں پہ محیط ہوتیں۔اس دوران مختلف مذہبی افکار و مسائل زیر بحث آتے۔انہی ملاقاتوں کے ذریعے نپولین کو اسلام کے متعلق قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔حتی کہ وہ اسلامی فقہ کے بنیادی خدوخال بھی جان گیا جو تب مصر میں رائج تھا۔ مصر پہنچ کر نپولین نے اسلام کا ذکر اچھے الفاظ میںکیا اور نبی کریمﷺ کو تعظیم دی۔دوران قیام جب عید میلاد النبیﷺ کا موقع آیا،تو اس کے حکم پر فرانسیسی فوج نے قاہرہ کی سڑکوں پہ خصوصی پریڈ کا مظاہرہ کیا۔اس موقع پر نپولین نے خود کو ’’حضور اکرم ﷺ کا قابل فرزند‘‘اور ’’اللہ تعالی کا پسندیدہ‘‘قرار دیا۔اس سے قبل اگست 1789ء میں وہ مصر کے شیخ السلام کو خط لکھ کر بتا چکا تھا: ’’میں تمام دانشوروں کوساتھ ملا کر دنیا میں قرآن کے اصولوں پہ مبنی ایک منظم حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔صرف قرآن پہ عمل کر کے ہی انسان سچی خوشیاں پا سکتا ہے۔‘‘(بحوالہ:Bonaparte et L'Islam : d'après les documents Francais et Arabes از Christian Cherfils ) نپولین کے درج بالا قول و فعل سے یہی لگتا ہے کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔تاہم اس کے قریبی ساتھیوں اور جرنیلوں کا بیان ہے کہ اس نے مصر میں قدم جمانے اور سیاسی طاقت پانے کی خاطر مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔مصر سے نپولین کی رخصتی کے بعد اس کے عمل بھی عیاں کرتے ہیں کہ وہ پہلے کے مانند موحد کی زندگی گزارتا رہا۔مسلمان صرف اس لیے ہوا کہ مصری مسلمانوں کا دل جیت سکے۔ مگر بعض شواہد انکشاف کرتے ہیں کہ دین اسلام نے ایک سالہ دور میں نپولین پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔اول رحمت للعالمینﷺ کی حیاتِ مبارکہ نے اسے بہت متاثر کیا۔اسی لیے ممتاز امریکی مورخ،جوان کول(Juan Cole)نے اپنی کتاب’’Napoleon's Egypt: Invading the Middle East‘‘میں لکھا ہے کہ یہ سچ ہے،نپولین دل سے حضرت محمدﷺ کا احترام کرتا تھا۔ دوسرا ثبوت ’’نپولینی کوڈ‘‘(Napoleonic Code) کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے جو بہ حیثیت سول کوڈ فرانس ہی نہیں اکثر یورپی ممالک مثلاً اٹلی،ہالینڈ،بیلجئم،پولینڈ ،جرمنی وغیرہ میں رائج ہوا۔اس کوڈ کی کئی دفعات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ مثال کے طور پر فکر ِاسلام سے استفادہ کرتے ہوئے نپولینی کوڈ میں مملکت کے سبھی شہری قانون کی نظر میں برابر قرار پائے۔ہر شہری کو آزادی رائے کے اظہار کا حق ملا۔وہ جائیدادیں رکھنے کے حقدار بنے اور حکومت کا ان پہ زبردستی قبضہ ناجائز ٹھہرا۔خواتین کو طلاق کا حق مل گیا۔نیز فرانس سے جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ نپولینی کوڈ میں اسلامی فقہ کے مطابق والدین کو بچوں کے نان نفقہ کا پابند بنایا گیا۔اسلامی تعلیم کے زیراثر ہی نپولین اپنے کوڈ میں دادا دادی اور نانا نانی کو یہ حق بھی دینا چاہتا تھا کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو ماں باپ کی ناجائز مارپیٹ سے بچا سکیں تاہم کامیاب نہ ہو سکا۔ غرض عالم ِاسلام میں ایک سالہ قیام کے دوران نپولین بونا پارٹ نے اسلامی تعلیمات سے جو مفید و انسان دوست باتیں پائیں،انھیں بعد ازاں 1804ء میں وضع کردہ اپنے سول کوڈ میں جمع کر دیا۔یہ دین اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارا دین ایک اور لحاظ سے بھی فرانسیسی جرنیل پہ اثرانداز ہوا۔اسلام سے واقف ہونے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سود کی لعنت کے باعث یورپی ممالک غربت،پسماندگی اور بیماریوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔چونکہ برطانیہ سود خوروں کا پشت پناہ تھا،اس لیے بھی وہ انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوا۔نپولین کی بدقسمتی کہ جنگ ِواٹر لو(1815ء)میں سود خور جیت گئے اور اس کی قسمت کا ستارہ غروب ہوا۔ 

No comments:

Post a Comment