Thursday, 4 February 2016

ٹائم مشین


اس دور میں ابھی ٹائم مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی جس میں بیٹھ کر چودہ سو سال پیچھے جا کر اس دور کے حالات کو دیکھا جا سکتا اور اس زمانے کے جھگڑے موجودہ دور میں لائے جا سکتے. یعنی بہت پسماندہ دور تھا. (آج کل تو بہت سی ٹائم مشینیں ایجاد ہوچکی ھیں ) میں اس وقت پانچ چھ سال کا تھا جیسا کہ ایک بار پہلے بتایا کہ میں اس دور میں اپنے ننھیال میں رہتا تھا بہت ہی پسماندہ چھوٹا سا پنڈ تھا جہاں بجلی بھی نہیں آئی تھی اس لئے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے کیلئے بہت سا وقت ہوتا تھا. پنڈ کی مسیت کے مینار پر چڑھ کر اذان دی جاتی تھی لاؤڈ سپیکر بجلی سے چلتا ہے بجلی تھی نہیں اس لئے لاؤڈ سپیکر بھی نہیں تھا اس لئے سب مسلمان ہی تھے سب ہی آہستہ آہستہ آواز میں باتیں کرتے اللہ کی باتیں اللہ کے رسول ص کی باتیں . مولبی صاحبان کے پاس فتووں کی کتابیں نہیں تھیں صرف قرآن پاک تھا اس لئے مولبی صاحبان کے مالی حالات بھی ماٹھے تھے . جمعرات کے جمعرات حلوے پر ختم دے کر جلوہ بچتا تھا یا پھر نکاح وغیرہ پڑھانے اور جنازہ پڑھانے کے پیسے ملا کرتے تھے لیکن چھوٹے سے پنڈ میں لوگ مرتے بھی کم کم تھے اس لئے جنازے پڑھانے کے مواقع بھی کم ھوتے تھے . میلاد وغیرہ ابھی شروع نہیں ہوئے تھے اس دور میں. آج کا دور تو بہت سنہری دور ہے جنازے بھی بہت میلاد بھی بہت. بلکہ آج کے دور میں تو لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے بھی بہت فوائد ھیں. موبائل ، کمپیوٹر یا ٹی وی وغیرہ کا تصور بھی نہیں تھا چنانچہ جنت ماں باپ کے قدموں تلے تلاش کی جاتی تھی خودکش جیکٹ میں نہیں. وہ پنڈ میری کائنات تھی میرا گلوبل ویلیج تھا . مجھے کسی مدرسہ میں کسی مولوی صاحب کے پاس رب جی کی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا. جیسے پہلے بھی بتایا کہ ایک اماں جی سے رب جی کی کتاب کا علم حاصل کیا. ان اماں جی جیسا قرآن پاک کسی سے نہیں سنا آج تک. ایک ایک لفظ روح میں اترتا محسوس ہوا کرتا تھا. میرے بچپن میں قرآن پاک کا وہ علم میری زندگی بھر کا علم بن گیا . انجانی سی عربی زبان کے ایک ایک لفظ کا مطلب جیسے میرے دل کو پہلے ہی معلوم تھا . وہ تمام الفاظ اور ان کے مطالب نے مجھے کچھ اور سمجھنے کی گنجائش ہی نہیں رھنے دی تھی . وہ اماں جی مجرم کے دنوں کا سوگ خاموشی سے منایا کرتی اور نبی ص کے چاروں دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوجایا کرتیں. ان کو سب سے محبت تھی عقیدت تھی پنڈ کے باقی لوگ بھی کم و بیش ایسی ہی سوچ والے تھے . اس پنڈ میں موجودہ زمانے کے تمام کافر اکٹھے رہتے تھے لیکن اس وقت تک کافر نہیں تھے ایک دوسرے کے ساتھ بہت محبت کرتے تھے کم علم تھے مدرسے سکول کی تعلیم سے کوسوں دور تھے اس لئے آپس میں بھائی بھائی تھے. پھر سائنس نے ترقی کی لوگ باشعور ہونے لگے ٹائم مشینیں ایجاد ہونے لگیں لوگ صدیوں پرانے سفر کرنے لگے. سفر سے واپس آکر ماضی کے حالات کی تصاویر لوگوں کو دکھانے لگے لوگوں کی آنکھوں میں خون اترنے لگا . ان واقعات کی کتابیں چھپنے لگیں. منبر سٹیج نئے انداز سے سجنے لگے. جنازے پڑھانے سے زیادہ فائدہ مند کاروبار چل پڑے منبر کے دائیں بائیں کلاشنکوف بردار مومن کھڑے ہونے لگے. کتابوں کے ڈھیر سامنے رکھ کر حوالے دئیے جانے لگے. قرآن پاک کو الماریوں میں قید کر دیا گیا تھا چنانچہ کتابوں نے سٹیج پر جگہ بنا لی اور یوں گلشن کا ایسا کاروبار چلا جس نے گلشن کو ہی جلانا شروع کر دیا. . . . . کافر کافر کافر کافر کافر. . . تڑاتڑ. تڑاتڑ. تڑاتڑ. تڑاتڑ. ھر طرف یہی گونج سنائی دینے لگی . باہر سے امدادیں آنے لگی. مینار پر چڑھ کر اذان دینے والا بلٹ پروف لینڈ کروزر پر چڑھ کر مسجد کی طرف ، فلاح کی طرف بلانے کی بجائے جنت جنت جنت کے ھوکے دینے لگا. اور آج . . . . . ھر طرف کافر ہی کافر. . . مسلمان ایک بھی نہیں .

Sunday, 17 January 2016

ٹارزن

ٹارزن ایک خیالی شخصیت ہے جو پہلی بار 1912ء (میگزین میں 1912ء جبکہ ناول 1914ء میں شائع ہوا) میں امریکی مصنف  ایڈگر رائس بورس (1875 – 1950) کی کہانی “بندروں کا ٹارزن”  میں منظرِ عام پر آئی جس نے اس وقت بہت مقبولیت حاصل کی، بعض لوگ اسے خیالی شخصیات میں سے سب سے مقبول شخصیت قرار دیتے ہیں، کہانی کی اشاعت کے بعد ٹارزن فلموں، بچوں کی کہانیوں، ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں، تیل کے اشتہاروں، بچوں کے کھلونوں، کپڑوں اور سپورٹس جوتوں میں نظر آیا، اس شخصیت پر 1918ء سے لیے کر 1999ء تک 88 فلمیں بنائی جا چکی ہیں، یہ شخصیت اتنی مقبول ہوئی کہ بعض لوگ اسے ایک حقیقی کردار سمجھنے لگے، ٹارزن پر امریکی مصنف فلپ فارمر  (پیدائش 1918ء) جو سائنس فکشن کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں نے ایک نظریہ وضع کیا جس کے مطابق برطانیہ میں 13 دسمبر 1795ء کو ورلڈ نیوٹن  نامی شہر پر ایک شہابِ ثاقب گرتا ہے جس کے اثر سے حادثہ کے قریب رہنے والے لوگوں میں وراثتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، یہ تبدیلی ان لوگوں کی آگے کی نسل میں غیر طبعی طاقتیں پیدا کردیتی ہے، فارمر کے مطابق اس شہر کے لوگوں کی نسل سے غیر طبعی طاقتوں کی حامل سب سے مشہور شخصیات ٹارزن، شارلک ہولمز اور جیمز بانڈ ہیں، یہ درست ہے کہ مذکورہ تاریخ کو اس چھوٹے سے شہر میں واقعی ایک شہابِ ثاقب گرا تھا تاہم اکثر لوگ فارمر کے نظریہ کو صرف ایک فرضی مفروضہ قرار دیتے ہیں جسے انہوں نے اپنی کہانیوں میں استعمال کیا۔ 
۱۹۱۲ میں شائع ہونے والا ناول
“بندروں کا ٹارزن” کہانی کے مطابق ٹارزن جس کا اصل نام جان کلایٹن ہے ایک امیر برطانوی کا بیٹا ہے، اس کے والدین افریقہ کے ساحلوں کے قریب ایک بحری جہاز میں ہوتے ہیں، جہاز کا عملہ قبطان کے خلاف ہوجاتا ہے اور جہاز میں لڑائی شرع ہجاتی ہے جس کے نتیجے میں جہاز ایک افریقی ساحل کے کنارے جا لگتا ہے، اس کے بعد جبکہ وہ ابھی شیر خوار بچہ ہوتا ہے اس کے والدین مر جاتے ہیں، “مانجانی”  نسل کا ایک بڑا بندر اس کا خیال رکھتا ہے اور اسے “ٹارزن” کا نام دیتا ہے جس کا مطلب بندروں کی زبان میں “سفید چمڑی” ہے، جو بندر ٹارزن کو پالتے ہیں وہ ایک خیالی نسل کے بندر ہوتے ہیں جن کا حقیقت میں علمی تصنیفات میں کوئی وجود نہیں، جب ٹارزن جوان ہوتا ہے تو وہ “جین” نامی ایک امریکی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے، جب جین جزیرہ چھوڑ کر جاتی ہے تو ٹارزن اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے، تلاش کا خاتمہ جین اور ٹارزن کی شادی پر ہوتا ہے، ان کا ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام وہ “کوراک” رکھتے ہیں، وہ کچھ عرصہ لندن میں رہتے ہیں پھر شہر کی منافقت بھری زندگی سے دور واپس جزیرے کی قدرتی زندگی میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں، جزیرے پر واپسی کے بعد کہانی ان کے “دائمی حیات” پا جانے کے بعد ختم ہوجاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ابھی بھی بقیدِ حیات ہیں جیسا کہ “بندروں کا ٹارزن” میں آیا ہے۔
ٹارزن کی کہانی لکھنے سے پہلے مصنف اپنی زندگی میں کئی ناکام مرحلوں سے گزرا، 1895ء میں میچگن سے عسکری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ گھوڑوں کی نمبر 17 ٹیم کا ممبر بنا جس کا کام شمالی امریکہ کے اصل رہائشیوں “اباٹچی” کا پیچھا کرنا تھا، لیکن اس کی عسکری زندگی اس وقت اچانک ختم ہوگئی جب اس کے دل کے ایک وال میں خرابی پائی گئی، فوج چھوڑنے کے بعد اس نے کئی دوسرے کام کئے، آخر کار سٹیشنری فروخت کرنے والا بن گیا، ایک دن جب وہ اپنی کمپنی جس کے لیے وہ کام کرتا تھا کا مال فروخت کرنے کے لیے ایک دکان والے کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک میگزین پر پڑی جس میں تصویری کہانیاں چھپی تھیں، مصنف کی یاداشتوں کے مطابق اس نے با آواز بلند اس میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا تھا “اگر لکھاری ایسی خرافات لکھنے کے لیے رقم وصول کر سکتے ہیں تو میں اس سے اچھی خرافات لکھ سکتا ہوں۔
مصنف ایڈگر رائس بورس
کہانی کے واقعات جو ٹارزن کی جانوروں اور جزیرے کے اصل باشندوں سے لڑائی سے بھرپور ہے سال 1908ء کے آس پاس وقوع پذیر ہوتے ہیں، مصنف ٹارزن کو ایک ایسے انسان کی شکل میں پیش کرتا ہے جو کسی حد تک ایک قدیم یونانی بت سے مشابہت رکھتا ہے اور اس کی آنکھوں کا رنگ بھورا ہوتا ہے، وہ اپنے بالوں کو وقتاً فوقتاً ایک چھری سے کاٹتا رہتا ہے جو اس کا باپ مرنے سے پہلے چھوڑ گیا تھا جب وہ شیر خوار بچہ تھا، اس کی شخصیت وحشی ہوتی ہے، بحری جہاز میں لڑائی کی وجہ سے جب بحری جہاز ایک افریقی جزیرے پر لگتا ہے، تو اس کے والدین اس جزیرے پر ایک جھونپڑی بناتے ہیں جس میں جان کلایٹن یعنی ٹارزن پیدا ہوتا ہے، ایک سال کے بعد اس کی ماں مرجاتی ہے اور اس کا باپ ایک بڑے بندر کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔
اگرچہ ٹارزن سلسلے کی ابتدائی کہانیوں اور فلموں نے منقطع النظیر کامیابیاں حاصل کیں لیکن بعد کا کام ابتدائی کہانیوں اور فلموں کے درجہ تک کبھی نہیں پہنچ سکا، ساٹھ کی دہائی کے آخر اور ستر کی دہائی کے شروع میں بعض لوگوں نے ٹارزن کی کہانی کو سرے سے ایک انتہا پسند کہانی قرار دیا جس کی وجہ بعض کے خیال میں ٹارزن کا نام ہی ہے جس کا مطلب بندروں کی خیالی زبان میں “سفید چمڑی والا” بنتا ہے، جبکہ بعض کے خیال میں کہانی میں سفید کو کالے افریقیوں سے برتر جبکہ افریقیوں کو وحشی دکھایا گیا ہے، اس کے علاوہ خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی بعض تنظیموں نے ٹارزن کی شخصیت کو مرد کی عورت پر برتری کا ایک کردار قرار دیا۔

ٹارزن اور مشرقِ وسطی کی سیاست
اسرائیلی ٹارزن کے ایک ناول کا ٹائٹل
پچاس کی دہائی میں ٹارزن کی کہانی کو عرب اسرائیل تنازعہ میں استعمال کیا گیا، اس زمانے میں اسرائیل میں ٹارزن کی کہانیاں لوگوں کا جنون بن گئیں، اصل کہانی کو تبدیل کردیا گیا اور اصل سے مختلف ٹارزن کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں ٹارزن زمین پر خلائی حملہ آوروں کے حملے روکنے کے لیے دیگر سیاروں میں جاتا ہے، بعض اوقات وہ وقت کا سفر کرکے ماضی میں چلا جاتا ہے اور قرونِ وسطی کے جنگجوؤں سے لڑتا ہے، اسرائیل میں شائع ہونے والے ٹارزن سلسلہ میں دکھایا گیا کہ کس طرح ٹارزن برطانوی دور میں غیر شرعی یہودی مہاجرین کو فلسطین میں داخل ہونے میں مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے انگریز اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں، ایک کہانی میں ٹارزن سویس میں مصری فوج کا حصار توڑتا ہے اور کئی مصری فوجیوں کو قتل کردیتا ہے، ایک اور کہانی میں ٹارزن ایک نازی – مصری سازش کو ناکام بناتا ہے جس کا مقصد افریقہ اور پوری دینا پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔
دوسری طرف مصر اور سوریا (شام) میں بھی اس سے ملتی جلتی کہانیاں شائع ہوئیں اور ایک ایسا ٹارزن منظرِ عام پر آیا جو اسرائیلی ٹارزن سے قطعی مختلف تھا، یہ ٹارزن نہ صرف مسئلہ فلسطین کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا بلکہ یہودیوں سے جنگ بھی کرتا تھا۔
ٹارزن کا سب سے پہلا عربی سلسلہ تیس کی دہائی میں لبنان میں شروع ہوا، دمشق میں ٹارزن کی کہانیوں کے 20 سے زائد سلسلے شروع ہوئے، ان کہانیوں کے مصنف سوریا کے کمال ربقی تھے جو ساٹھ کی دہائی میں صوت دمشق (وائس آف دمشق) کے کاسٹر تھے، اسرائیلی ٹارزن کے جواب میں شروع کیا گیا ٹارزن کا یہ سلسلہ یمن سے مصر تک تمام عرب ملکوں میں انتہائی مقبول ہوا، ایک تاریخی تضاد یہ ہے کہ ان کہانیوں کے مصنف کمال ربقی کو بعد میں اسرائیل سے ہمدردی کے جرم میں سوریا کے حکام نے پھانسی پر چڑھا دیا تھا!!۔
ٹارزن کی چیخ
ٹارزن کی شخصیت اپنی ایک خاص چیخ کی وجہ سے مشہور تھی جو تمام وحشی جانوروں کو ڈرا دیتی تھی، یہ چیخ پہلی بار ٹارزن کی اس فلم میں شامل کی گئی جس میں جونی ویزمل (1904 – 1984) نے ٹارزن کا کردار ادا کیا تھا، جونی ایک تیراک تھا، اس کے پاس تیراکی کے چار اولمپک میڈل تھے، اس نے 12 مختلف فلموں میں ٹارزن کا کردار ادا کیا، ٹارزن کی چیخ پر اختلاف پایا جاتا تھا کہ یہ جونی کے گلے کا کمال ہے یا ساؤنڈ افیکٹ کا کمال ہے، بعض کا خیال تھا کہ چیخ در حقیقت کتے، وائلن اور اوپرا سنگر کی آواز کا مکسچر ہے جبکہ بعض کی رائے یہ تھی کہ تین لوگ طویل ریاض کے بعد ٹارزن کی یہ چیخ نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو ایک طرح سے ٹارزن کا ٹریڈ مارک بن گئی ہے، آج بھی ٹارزن سے متعلق ہر کام میں یہی چیخ استعمال کی جاتی ہے.
پیرس اولمپک میں 4 سونے کے میڈل حاصل کرنے کے بعد 1929ء میں جونی نے سپورٹس سے متعلق مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات میں کام کیا، 1932ء میں اس نے فلم “ٹارزن، بندر آدمی” میں ٹارزن کا کردار ادا کیا، اس نے یہ کردار اس قدر مہارت سے ادا کیا کہ لوگ تو لوگ کہانی کا مصنف ایڈکر رائس بورس بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا، ستر کی دہائی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں جونی نے ٹارزن کی مشہور چیخ پر سے پردہ اٹھایا، اس نے کہا کہ یہ آواز اونچی صوتی تہہ کے حامل تین گانے والوں کی ہے اور اس میں اس کے گلے کا کوئی کمال نہیں ہے۔
بندروں کی زبان
ایڈگر رائس بورس کی کہانی میں بندر ایک خیالی نسل کے ہوتے ہیں اور ان کی ایک خاص قسم کی خیالی زبان بھی ہوتی ہے، مانجانی بندروں کی اس نسل کا نام تھا جو ٹارزن کو گود لیتے ہیں ساتھ ہی یہ ایک تصوراتی مانجانی زبان کا نام بھی تھا جو مانجانی نسل کے بندر بولتے تھے، ذیل میں اس تصوراتی زبان کی کچھ مثالیں ہیں۔

ٹارزن: سفید جلد
مانجانی: بڑا بندر
تار مانجانی: بڑا سفید بندر
جومانجانی: کالا بڑا بندر
بولجانی: گوریلا
نالا: اوپر
تاند نالا: نیچے

اصل کہانی میں مصنف گوریلا اور مانجانی نسل کے بندروں میں فرق کرتا ہے مگر زیادہ تر فلموں نے اس نقطہ کو نظر انداز کیا اور مانجانی کی بجائے گوریلا کو ہی ٹارزن کی فیملی دکھایا۔
ٹارزن اور والٹ ڈیزنی
18 جون 1999ء والٹ ڈیزنی نے ٹارزن پر ایک کارٹون فلم پیش کی جن نے پوری دنیا میں 448 ملین ڈالر کا بزنس کیا، اگرچہ فلم ایڈگر رائس بورس کی اصل کہانی پر مبنی تھی تاہم کمپنی نے کچھ تبدیلیاں کیں جن میں کچھ یہ ہیں

– ٹارزن کا باپ ایک بڑے بندر کی بجائے ایک چیتے کے ہاتھوں مارا جاتا ہے
– فلم میں گوریلا نسل کے بندروں کو دکھایا جاتا ہے حالانکہ اصل کہانی میں مانجانی نامی تصوراتی بندر ہوتے ہیں جو گوریلا سے مختلف ہیں۔
– فلم میں بحری جہاز جس میں ٹارزن کے والدین ہوتے ہیں تباہ ہونے کی وجہ سے جزیرے سے جالگتا ہے نا کہ جہاز پر لڑائی کی وجہ سے جیسا کہ اصل کہانی میں ہے۔
– فلم میں چیتے ٹارزن کے اصل دشمن ہوتے ہیں جبکہ اصل کہانی میں شیر ہوتا ہے.
– فلم میں جزیرے کے اصل رہائشی افریقیوں کا کوئی کردار نہیں جبکہ اصل کہانی میں متنازعہ افریقی قبائل کہانی کا مرکزی کردار ہوتے ہیں۔

والٹ ڈیزنی کی تیار کردہ اس کارٹون فلم کو بہترین گانے “تم میرے دل میں رہوگے کے زمرے میں آسکر ایوارڈ برائے سال 2000 سے نوازا گیا جبکہ اسی گانے کو اسی سال گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ملا۔
ٹارزن کی تصنیفات
سال 1912ء سے 1941ء تک ایڈگر رائس بورس (1875 – 1950) نے ٹارزن کی کہانیوں پر مبنی 20 سے زائد سلسلے لکھے، ساٹھ کی دہائی میں کچھ دیگر لکھاریوں نے 1964ء سے لے کر 1965ء تک ٹارزن پر 5 نئی کہانیاں لکھیں لیکن یہ کہانیاں شائع نہ ہوسکیں کیونکہ کاپی رائٹ کے تحت انہیں غیر قانونی سمجھا گیا اور اصل ناشر نے جس کے پاس نشر کے حقوق تھے مصنفین پر کیس کردیے، اگرچہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں ٹارزن کی کہانی کے کاپی رائٹ حق کی مدت تمام ہوچکی ہے تاہم کہانی اور اس سے متعلقہ دیگر مصنوعات پر کاپی رائٹ یورپی یونین میں 2021ء تک محفوظ ہے، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اصل کہانی سے تبدیل شدہ کہانیاں جو اسرائیل اور عرب ممالک میں شائع ہوئیں وہ قانونی نہیں تھیں اور انہیں شائع کرنے والے اداروں نے ایڈگر رائس بورس اور ناشر سے اجازت حاصل نہیں کی تھی۔

1972ء میں ٹارزن پر امریکی مصنف فلپ فارمر (پیدائش 1918ء) جو سائنس فکشن کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں نے ایک نظریہ وضع کیا جس کے مطابق برطانیہ میں 13 دسمبر 1795ء کو ورلڈ نیوٹن نامی شہر پر ایک شہابِ ثاقب گرتا ہے جس کے اثر سے حادثہ کے قریب رہنے والے لوگوں میں وراثتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، یہ تبدیلی ان لوگوں کی آگے کی نسل میں غیر طبعی طاقتیں پیدا کردیتی ہے جن میں ٹارزن کے اجداد بھی شامل تھے فارمر نے ٹارزن کی شخصیت پر متعدد کہانیاں لکھیں تاہم انہوں نے ٹارزن کے نام کا کبھی تذکرہ نہیں کیا تاکہ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب نہ ہوں، 2000ء میں نیوزی لینڈ کے  نیگل کوکس (پیدائش 1951ء) نے ٹارزن بریسلی کہانی لکھی جس میں ٹارزن اوربریسلی کی شخصیت کا امتزاج پیش کیا گیا تھا لیکن اس پر کیس کردیا گیا اور 2004ء میں کتاب کی اشاعت کو روک دیا گیا۔
ٹارزن اور ناقدین
ٹارزن کی کہانی کو مغرب میں کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، کہیں انتہا پسندی کے مخالفین نے اس شخصیت میں انتہا پسندی کا 
عنصر ڈھونڈ نکالا تو کہیں آزادی نسواں کے علمبرداروں نے اس میں مرد کی عورت پر برتری کا پہلو نکال لیا، اسی طرح عرب اور اسلامی دنیا میں بھی یہ کہانی تنقید کی لہر سے نہ بچ سکی، عرب اور اسلامی ناقدین کے مطابق یہ کہانی کسی نہ کسی طرح بچوں کو لڑنے کی ترغیب دیتی ہے اور انہیں ایک ایسے اندازِ سلوک سے روشناس کراتی ہے جو عرب اور اسلامی دنیا کی روایات سے کافی دور ہے۔
سال 2004ء کے وسط میں خلیج تعاون کونسل کے ذیلی ادارے “مؤسسة الإنتاج البرامجي المشترك” نے عراقی ہدایتکار ثامر الزیدی کو “ابنِ طفیل” (وفات 1185ء مراکش) کی “حی بن یقظان” پر مبنی “ابن الغابہ” (جنگل کا بیٹا) نامی کارٹون فلم بنانے کے لیے کہا۔
اکثر عرب ناقدین کا خیال ہے کہ حی بن یقظان کی کہانی میں ایک گہرا فلسفہ ہے جو ہالی ووڈ اور والٹ ڈیزنی کے ٹارزن میں نظر نہیں آتا، بعض کا خیال ہے کہ ابنِ طفیل اس کتاب (حی بن یقظان) میں انسانیت کے ارتقاء کا خلاصہ پیش کرتا ہے، جنگلوں اور غاروں میں رہنے والے انسان سے ارتقاء جو دیکھتے، مشاہدہ کرتے، نقل کرتے، سیکھتے اور دریافت کرتے ہوئے زراعت اور پھر مشین کی اختراع تک پہنچتا ہے۔
ہدایتکار ثامر الزیدی کے مطابق والٹ ڈیزنی کی تیار کردہ زیادہ تر کارٹون فلموں کی کہانیاں حی بن یقظان کی کہانی سے لی گئی ہیں، حی بن یقظان کا 1341ء میں عبرانی زبان میں ترجمہ ہوا اور اس سے یہ کچھ دیگر یورپی زبانوں میں منتقل ہوئی، 1671ء میں اس کا لاطینی زبان میں ترجمہ ہوا اور پھر ہالینڈ کی زبان میں ترجمہ ہوکر یہ 1672ء میں شائع ہوئی، 1674ء میں اس کا انگریزی ترجمہ نمودار ہوا جبکہ ایک اور انگریزی ترجمہ 1686ء میں منظرِ عام پر آیا جسے جارج ایشویل نے کیا تھا، اسی طرح مزید متعدد تراجم منظرِ عام پر آئے، جرمن زبان میں یہ کہانی 1726ء اور پھر 1783ء میں منظرِ عام پر آئی جبکہ پہلا فرانسیسی ترجمہ 1900ء میں منظرِ عام پر آیا، اس فلسفیانہ کہانی نے بہت سارے مغربی ادیبوں کو متاثر کیا جیسے انگریز مصنف ڈینیل ڈیفو (1660 – 1731) جو اس کہانی کے مرکزی پلاٹ کو اپنی مشہور ترین تصنیف “رابنسن کروزو” میں استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ دونوں کہانیاں ابتدائی انسان کے ترقی کے سفر کو بیان کرتی ہیں، تقابلی ادب کے بہت سارے ماہرین کو یقین ہے امریکی مصنف ایڈگر رائس بورس نے ضرور حی بن یقظان کی کہانی پڑھی ہوگی اور اس سے کسی حد تک متاثر ہوا ہوگا، اس خیال پر یقین رکھنے والے کچھ ناقدین اور تحقیقی کتب


– محمد التونجی اپنی کتاب “دراسات فی الادب المقارن” (تقابلی ادب پر تحقیق) – دار العروبہ للطباعہ – حلب – 1982ء۔
– حسن محمود عباس اپنی کتاب “حی بن یقظان و روبنسون کروزو – دراسہ مقارنہ” (حی بن یقظان اور رابنسن کروزو – تقابلی تحقیق) – المؤسسہ العربیہ للدراسات والنشر – بیروت – الطبعہ الاولی (پہلا ایڈیشن) – 1983ء۔

Tuesday, 5 January 2016

نپولین نے اسلام قبول کر لیا تھا

اسلامی تعلیمات نے عظیم فرانسیسی مدبر وجرنیل کو اپنا گرویدہ بنا لیا * یہ جولائی 1798ء کا واقعہ ہے جب فرانسیسی فوج کے کمانڈر کی حیثیت سے نپولین بونا پارٹ نے مصری شہر،اسکندریہ پہ قدم دھرے۔فرانسیسی اس لیے مصر آئے تھے تاکہ علاقے میں برطانوی اثرورسوخ ختم کر سکیں،نیز ہندوستان سے انگریزوں کی تجارت کو ضعف پہنچائیں۔ نپولین اگست 1799ء تک مصر میں مقیم رہا۔اس دوران وہ فلسطین بھی گیا تاکہ وہاں تعینات برطانوی فوج سے نبردآزما ہو سکے۔کچھ ہی لوگ جانتے ہیں کہ دوران قیام مصر نپولین بونا پارٹ نے (کم از کم ظاہری طور پہ)اسلام قبول کر لیا تھا۔ مسلمان ہونے کی خبر بے بنیاد نہیں…یہ 6دسمبر1798ء کو مشہور فرانسیسی اخبار ’’Gazzette National ou Le Moniteur Universel‘‘میں شائع ہوئی۔یہ اخبار پورے یورپ میں فرانسیسی حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے مشہور تھا۔ درج بالا اخبار میں چھپنے والی خبر افشا کرتی ہے کہ نپولین نے اسلام قبول کر لیا تھا۔اور یہ کہ اس کا اسلامی نام ’’علی نپولین‘‘رکھا گیا۔سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں عظیم جرنیل ومدبر سمجھا جانے والا نپولین بونا پارٹ پھر بطور مسلمان کیوں مشہور نہیں ہوا؟اس سوال کا جواب نپولین کی مذہبی زندگ
ی میں پوشیدہ ہے۔ اس کے والدین کیتھولک عیسائی تھے۔سو اس کی پرورش بھی رومن کلیسا کی مذہبی روایات کے مطابق ہوئی۔تاہم وہ جوانی میں ’’موحد‘‘(Deist)بن گیا۔ عیسائی دنیا میں یہ اصطلاح ان عیسائیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو ایمانی عقیدے نہیں عقل اور فطری مظاہر کی بنا پہ ’’ایک خدا‘‘کی موجودگی تسلیم کر لیں۔ یہ عیسائی موحد اس لحاظ سے روایتی عیسائیوں سے مختلف ہیں کہ یہ بائیبل کے غلطیوں سے پاک ہونے کے عقیدے (Biblical inerrancy) اور عقیدہ تثلیث(یہ کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیؑ اور حضرت جبرائیلؑ بھی خدائی میں شامل ہیں)پہ یقین نہیں رکھتے۔نیز وہ خلاف العقل کرشموں اور معجزوں سے بھی انکار کرتے ہیں۔ گویا کم ازکم نپولین بے خطا بائیبل اور تثلیث عقائد تسلیم نہ کرنے کے باعث فکری طور پہ مسلمانوںکے زیادہ قریب تھا۔مزیدبرآں وہ سمجھتا تھا کہ جزا و سزا کا مذہبی عقیدہ معاشرے میں نظم و ضبط برقرار رکھتا اور شہریوں کو جرائم کرنے سے روکتا ہے۔سو وہ مذہب کی افادیت کا قائل تھا۔ نپولین مصر پہنچا تو سیاسی و عسکری رہنمائوں کے علاوہ وہ علما سے بھی ملا۔بعض اوقات علمائے دین سے اس کی ملاقاتیں کئی گھنٹوں پہ محیط ہوتیں۔اس دوران مختلف مذہبی افکار و مسائل زیر بحث آتے۔انہی ملاقاتوں کے ذریعے نپولین کو اسلام کے متعلق قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔حتی کہ وہ اسلامی فقہ کے بنیادی خدوخال بھی جان گیا جو تب مصر میں رائج تھا۔ مصر پہنچ کر نپولین نے اسلام کا ذکر اچھے الفاظ میںکیا اور نبی کریمﷺ کو تعظیم دی۔دوران قیام جب عید میلاد النبیﷺ کا موقع آیا،تو اس کے حکم پر فرانسیسی فوج نے قاہرہ کی سڑکوں پہ خصوصی پریڈ کا مظاہرہ کیا۔اس موقع پر نپولین نے خود کو ’’حضور اکرم ﷺ کا قابل فرزند‘‘اور ’’اللہ تعالی کا پسندیدہ‘‘قرار دیا۔اس سے قبل اگست 1789ء میں وہ مصر کے شیخ السلام کو خط لکھ کر بتا چکا تھا: ’’میں تمام دانشوروں کوساتھ ملا کر دنیا میں قرآن کے اصولوں پہ مبنی ایک منظم حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔صرف قرآن پہ عمل کر کے ہی انسان سچی خوشیاں پا سکتا ہے۔‘‘(بحوالہ:Bonaparte et L'Islam : d'après les documents Francais et Arabes از Christian Cherfils ) نپولین کے درج بالا قول و فعل سے یہی لگتا ہے کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا۔تاہم اس کے قریبی ساتھیوں اور جرنیلوں کا بیان ہے کہ اس نے مصر میں قدم جمانے اور سیاسی طاقت پانے کی خاطر مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔مصر سے نپولین کی رخصتی کے بعد اس کے عمل بھی عیاں کرتے ہیں کہ وہ پہلے کے مانند موحد کی زندگی گزارتا رہا۔مسلمان صرف اس لیے ہوا کہ مصری مسلمانوں کا دل جیت سکے۔ مگر بعض شواہد انکشاف کرتے ہیں کہ دین اسلام نے ایک سالہ دور میں نپولین پر دیرپا اثرات مرتب کیے۔اول رحمت للعالمینﷺ کی حیاتِ مبارکہ نے اسے بہت متاثر کیا۔اسی لیے ممتاز امریکی مورخ،جوان کول(Juan Cole)نے اپنی کتاب’’Napoleon's Egypt: Invading the Middle East‘‘میں لکھا ہے کہ یہ سچ ہے،نپولین دل سے حضرت محمدﷺ کا احترام کرتا تھا۔ دوسرا ثبوت ’’نپولینی کوڈ‘‘(Napoleonic Code) کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے جو بہ حیثیت سول کوڈ فرانس ہی نہیں اکثر یورپی ممالک مثلاً اٹلی،ہالینڈ،بیلجئم،پولینڈ ،جرمنی وغیرہ میں رائج ہوا۔اس کوڈ کی کئی دفعات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ مثال کے طور پر فکر ِاسلام سے استفادہ کرتے ہوئے نپولینی کوڈ میں مملکت کے سبھی شہری قانون کی نظر میں برابر قرار پائے۔ہر شہری کو آزادی رائے کے اظہار کا حق ملا۔وہ جائیدادیں رکھنے کے حقدار بنے اور حکومت کا ان پہ زبردستی قبضہ ناجائز ٹھہرا۔خواتین کو طلاق کا حق مل گیا۔نیز فرانس سے جاگیرداری کا خاتمہ ہوا۔ نپولینی کوڈ میں اسلامی فقہ کے مطابق والدین کو بچوں کے نان نفقہ کا پابند بنایا گیا۔اسلامی تعلیم کے زیراثر ہی نپولین اپنے کوڈ میں دادا دادی اور نانا نانی کو یہ حق بھی دینا چاہتا تھا کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو ماں باپ کی ناجائز مارپیٹ سے بچا سکیں تاہم کامیاب نہ ہو سکا۔ غرض عالم ِاسلام میں ایک سالہ قیام کے دوران نپولین بونا پارٹ نے اسلامی تعلیمات سے جو مفید و انسان دوست باتیں پائیں،انھیں بعد ازاں 1804ء میں وضع کردہ اپنے سول کوڈ میں جمع کر دیا۔یہ دین اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارا دین ایک اور لحاظ سے بھی فرانسیسی جرنیل پہ اثرانداز ہوا۔اسلام سے واقف ہونے کے بعد اسے احساس ہوا کہ سود کی لعنت کے باعث یورپی ممالک غربت،پسماندگی اور بیماریوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔چونکہ برطانیہ سود خوروں کا پشت پناہ تھا،اس لیے بھی وہ انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوا۔نپولین کی بدقسمتی کہ جنگ ِواٹر لو(1815ء)میں سود خور جیت گئے اور اس کی قسمت کا ستارہ غروب ہوا۔ 

منحوس وزیر اعظم

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی نحوست نے یورپ کو نہ بخشا،لندن میں سبز قدم پڑتے ہی پیرس میں قیامت ٹوٹ پڑی۔بھارتی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم جس ملک گئے وہاں کوئی نہ کوئی گڑھ بڑھ ہوگئی، مودی کہیں منحوس تونہیں،بھارتی میڈیامیں نئی بحث چھڑگئی ۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ آسٹریلیا، کینیڈا، نیپال، چین جرمنی وہ جہاں بھی گئے کوئی نہ کوئی نحوست ہی لے کر گئے۔ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کا ستارہ خود تو چمکا اور وہ وزیراعظم بن گئے لیکن وہ جہاں بھی جاتے ہیں پنوتی یعنی منحوس کہلاتے ہیں۔مودی آسٹریلیا گئے تو وزیراعظم ٹونی ایبٹ کو خود ان کی پارٹی نے کان سے پکڑ کر نکال باہر کیا۔ کینیڈا میں اسٹیفن ہارپر 10 سال سے وزیراعظم تھے۔ مودی کا وہاں پہنچنا تھا کہ ان کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ مودی نیپال پہنچے تو وہاں وزیراعظم سوشیل کوئرالہ کو فارغ کر دیا گیا۔ چین پہنچے تو وہاں کی معیشت زوال کا شکار ہونے لگی۔جرمن کمپنی واکس ویگن دنیا کی سب سے بڑی کار بنانے والی کمپنی تھی ۔ مودی جرمنی پہنچے تو یہی کمپنی سب سے بڑی دھوکے باز کمپنی قرار پائی۔ دبئی گئے تو وہاں کے بادشاہ کا بیٹا فوت ہو گیا اور پاکستان میں آمد کے بعد زلزلہ ! آخر مودی بہار پہنچے،40 بار انتخابی جلسوں سے خطاب کیا اور الیکشن میں بی جے پی کی 40 ہی نشستیں کم ہو گئیں۔ دووز قبل مودی نے یورپ میں قدم رکھا تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ پیرس کے 7مقامات کو ایک ساتھ دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے مگر مودی کی نحوست نے یورپ کو بھی نہ بخشا اور ان کے لندن میں قدم رنجا فرمانے کے چند گھنٹوں بعد ہی فرانس میں قیامت ٹوٹ پڑی جہاں دہشتگردوں نے پیرس کے 7مقامات کو خودکش حملوں بم دھماکوں اور فائرنگ کا نشانہ بنایا ان حملوں میں 178افراد ہلاک اور 200سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مودی واقعی منحوس ہیں ۔

Friday, 4 December 2015

قرآنِ کریم دورِ حاضر کا سب سے بڑا موجزہ


سائنسدان کارل فان فرش نے شہد کی مکھیوں کی زندگی اور حالات پر ریسرچ کی ۔ اس ریسرچ کے نتیجے میں اسے سنہ ء 1973 میں نوبل پرائز ملا۔ وہ لکھتا ھے کہ شہد کی مکھی اللہ تعالیٰ کی بہت ھی زھین مخلوق ھے ۔ اس کی زھانت کا یہ عالم ھے کہ جب اس کو کسی نئی جگہ پر پھولوں کا جھنڈ ملتا ھے یا کوئی ایسا نیا پھول ملتا ھے جس سے بہترین شہد تخلیق کیا جا سکتا ھے تو وہ اپنے ساتھ والی دوسری مکھیوں کے پاس پہنچتی ھے ان کو اس پھول یا اس باغ کے بارے بتاتی ھے اس کا راستہ بتاتی ھے وہ یہ سب اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے بتاتی ھے۔ دوسری مکھیاں آسانی سے اس کا بتایا ھوا راستہ اور پھولوں کے بارے جان جاتی ھے۔ شہد کی مکھی کے اس عمل کو سائنسی نام Bee Dance دیا گیا۔ 

اس شخص نے قران پاک کے اس پیغام کے بتائے ھوئے راستے پر عمل کیا۔ " اللہ نے شہد کی مکھی کو سکھایا کہ پہاڑوں درختوں اور انسانوں کے رھنے والی جگہوں پر گھر بناؤ اور ھر قسم کے پھولوں سے شہد بناؤ اور مہارت کے ساتھ راستے پر جاؤ" سورہ نحل آیات 68/69۔۔۔

(سورہ النمل آیت 17 تا 19) ترجمہ۔اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ان کے لشکر جنّوں اور انسانوں اور پرندوں (کی تمام جنسوں) میں سے جمع کئے گئے تھے، چنانچہ وہ بغرضِ نظم و تربیت (ان کی خدمت میں) روکے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ (لشکر) چیونٹیوں کے میدان پر پہنچے تو ایک چیونٹی کہنے لگی: اے چیونٹیو! اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔ تو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرما لے۔

ماضی میں کچھ لوگ قرآن کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ جنوں اور پریوں کی کہانیوں کی کتاب ہے۔اس میں چیونٹیاں ایک دوسرے سے باتیں کرتی بتائی گئی ہیں۔یہ چیونٹیاں ایک دوسرے تک پیغامات بھی پہنچاتی ہیں۔

دورِ حا ضر میں وہ لوگ زندہ ہوتے تو یقینا انہیں شرمندگی ہوتی کیونکہ چیونٹیوں کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات سے کئی ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو پرانے زمانے میں انسان کے علم میں نہ تھے۔تحقیق نے ثابت کردیا کہ کچھ جانوروں اور حشرات الارض کا طرز زندگی انسانی طرز حیات سے ملتا جلتا ہے۔ جن میں چیونٹیوں بھی شامل ہیں۔چیونٹیوں کے بارے درج ذیل حقائق جدید سائنس کی روشنی میں اس بات کے ثبوت میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔

  1.  چیونٹیاں مرنے والی چیونٹیوں کو اسی طرح دفن کرتی ہیں جس طرح انسان کرتے ہیں۔
  2.  انہوں نے اپنے کام کاج کی تقسیم کررکھی ہے اور تقسیم کار کا ایک نہایت عمدہ نظام ان کے ہاں رائج ہے۔ان میں منیجر،سپروائزر،فورمین اور ورکر وغیرہ ہوتے ہیں۔
  3. یہ کبھی کبھار آپس میں مل بیٹھتی ہیں اور گپ شپ کرتی ہیں ۔
  4. باہمی بات چیت اور ابلاغ کا بھی ان کے ہاں ایک نہایت ترقی یافتہ طریقہ رائج ہے۔
  5. ان کے ہاں باقاعدہ بازار لگتے ہیں جہاں یہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں ۔
  6. چیونٹیاں موسم سرما میں طویل عرصے کے لیے اناج کا ذخیرہ کرلیتی ہیں ۔
  7. اگر اناج میں سے کونپلیں نکلنے لگیں تو یہ اس کی جڑیں کاٹ دیتی ہیں گویا یہ اس بات سے باخبر ہیں کہ اگر انھوں نے اسے اگنے دیا تو اناج ضائع ہوجائے گا۔
  8. اگر بارشوں کی وجہ سے ان کا ذخیرہ کیا ہوا اناج گیلا ہوجاتا ہے تو یہ اسے خشک کرنے کے لیے دھوپ میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ خشک ہوجائے تو چیونٹیاں اسے اندر لے جاتی ہیں جیسے ان کے علم میں ہو کہ اس اناج میں نمی آگئی تو اس کی جڑیں نکل آئیں گی اور یہ گل سٹر جائے گا۔

بہر حال یہ اللہ کی قدرت ہے جسے چاہتا ہے جتنی چاہتا ہے عقل سلیم عطا کرتا ہے۔ اور اس تحقیق سے قرآن کی حقانیت بھی واضح ہوتی ہے جس کی خبر آج سے کم و بیش چودہ سو برس پہلے ہی انسان کو اللہ تعالی نے عطاء فرما دی تھی۔

قران پاک یہ باتیں عام سی سمجھ کر ھم پڑھنے کے بعد آگے گزر جاتے ھیں۔ حالانکہ اللہ بار بار ان پر غور کرنے کی دعوت دیتا ھے۔ 

غیروں نے ایک ایک لفظ اھم جانا اس پر غور کیا اور دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔۔جن کے لئے یہ سب اتارا گیا وہ نادان محروم رہ گئے۔۔

گونگا درخت ۔غرقد

سیو غرقد ٹری! مگ قیمت 10 پاؤنڈ، سیو غرقد ٹی شرٹس 37 پاؤنڈز ، سیو غرقد پی کیپ 10 پاؤنڈز، سیو غرقد کچن ایپرن ،سیو غرقد ھینڈ بیگ، سیو غرقد شرٹ بٹن سیو غرقد اسٹیشنری، سیو غرقد ملبوسات پرفیومز، کچن کراکری، اور سیو غرقد کی ان گنت اشیاء کی فروخت ۔۔۔۔ سیو غرقد کے لئے فنڈ ریزنگ ، غرقد کے لئے چندہ مہمیں اور غرقد کی کاشت کا اسرائیلی مشن۔۔۔ ان تمام اشیاء کی فروخت کی کمائی سے حاصل ھونے والی رقم کو غرقد کی کاشت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
یہ غرقد کیا ھے؟۔ اس کی کاشت کے لئے یہودی کیوں باؤلے ھوئے پھر رھے ھیں؟
ان تمام اشیا پر ایک درخت کی تصویر بنی ھوئی ہے اس تصویر کو توجہ سے دیکھئیے۔ اس میں ایک مرد اور ایک عورت ایک درخت کے پیچھے چھپتے ھوئے دیکھے جا سکتے ھیں۔ یہی درخت غرقد ھے۔ پورے اسرائیل میں اس درخت کو انتہائی تیزرفتاری سے کاشت کیا جا رھا ھے غرقد کی کاشت کی مہم اسرائیلی ریاست کی سطح پر چلائی جا رھی ھے۔ خود اسرائیلی وزیراعظم اس تصویر میں ایک جگہ یہی درخت لگاتا ھوا نظر آ رھا ھے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے انڈیا سے بھی کہا ھے کہ وہ اپنے ملک کی تمام بنجر اراضی پر غرقد کی کاشت کرے جس کا تمام تر معاوضہ اسرائیل برداشت کرے گا۔ کیا تمام یہودی پاگل ھوچکے ھیں؟؟؟ نہیں دنیا کے تمام وسائل پر قابض یہودی پاگل نہیں ھیں یہ بہت ذھین قوم ھے ۔ یہ قوم اپنے مذھب سے زیادہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتی ھے۔ ان لوگوں نے احادیث کی تمام کتابیں پڑھ رکھی ھین۔ غرقد کی کاشت کی مہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پاک کی وجہ سے چلائی جا رھی ھے۔ صحیح مسلم کی وہ حدیث مندرجہ ذیل ھے۔۔۔۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ : يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ ، إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ » بَاب " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ ... رقم الحديث: 5207]

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کردیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے عبداللہ یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کردو سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2838 / 14635حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 6

Abu Huraira reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: The last hour would not come unless the Muslims will fight against the Jews and the Muslims would kill them until the Jews would hide themselves behind a stone or a tree and a stone or a tree would say: Muslim, or the servant of Allah, there is a Jew behind me; come and kill him; but the tree Gharqad would not say, for it is the tree of the Jews.
یہودی جانتے ھیں کہ آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والا ھر لفظ سچا ھے اور ھر قیمت پر پورا ھونے والا ھے۔ چنانچہ یہودی اس حدیث کی روشنی میں غرقد کی کاشت میں لگے ھوئے ھیں تاکہ مسلمانوں سے جنگ کے دوران جب اس زمیں کی ھر چیز پکار پکار کر کہے گی کہ اے مسلمانون میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ھوا ھے اسے قتل کر دو تو اس وقت یہی درخت گونگا بن کر اس چھپے ھوئے یہودی کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ یہودی جانتے ھیں ایسا ھی ھوگا۔ یہ معرکہ ھوکر رھے گا ۔۔۔۔۔ اس معرکے میں انشاللہ اس دنیا سے یہودیت کا مکمل خاتمہ ھوجائے گا اور اس دنیا کے انسان ھزاروں سال بعد اس زمین کو یہودیوں کی ساشوں سے محفوظ ایک جنت کا نمونہ پائیں گے۔
ھمارے لئے اس میں سبق کی بات یہ ھے کہ یہودی جیسے بدترین بھی ھمارے آقا ؐھؐد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ھر بات کو سچ مانتے ھیں تو کیا ھم یہودیوں سے بھی بدتر نہیں جو آپ ؐ کے احکامات کے منکر ھوچکے ھیں؟ ذرا سوچئیے گا۔۔۔۔

Sunday, 22 November 2015

پاکستان اور یہودی سازشیں

میں اپنے مضمون کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے کروں گا ۔
میں عرب میں ہوں لیکن مجھ میں عرب نہیں ہے ، میں ھند میں نہیں ہوں لیکن ھند مجھ میں ھے۔
۔ڈیوڈ بن گوریان نے 1968 میں عرب اسرائیل جنگ کی فتح کا جشن منانے کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ، ہمیں کسی عرب ملک سے خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بن گوریان جس زمانے میں پاکستان کے لئے یہ الفاظ کہے تھے اس وقت تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا بلکہ اندرونی بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ایک کمزور ملک تھا۔ اس کے باوجود ان کو آج بھی پاکستان سے خوف ہے، خطرہ ہے۔ آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ آج سے چودہ سو سال پہلے مخبر صادق آقائے دوجہاں محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ نے ادا فرمائے تھے۔ یہودیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی سچائی پر اور آپ ؐ پر اتنا یقین اور ایمان ہے کہ اگر وہ کلمہ پڑھ لیں تو ھم سے زیادہ پختہ ایمان والے مسلمان ثابت ھوں۔ قرآن حکیم میں دو جگہ ارشاد ربانی ہے۔
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے (اہل یہود نصاریٰ) وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح (لوگ)اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے وہ ایمان نہیں لاسکتے۔ سورہ الانعام۔
یہودیوں کو آپؐ کی آمد کے وقت کا بھی اتنا علم تھا کہ اس زمانے میں بہت سے ایسے اہل ایمان یہودی آپؐ کی آمدسے کچھ عرصہ پہلے دوردراز سے سفر کرکے مکہ پہنچے تھے جنہوں نے اپنی کتابوں میں آپؐ کے بارے پڑھ رکھا تھا۔ حدیث کے ان الفاظ کی وجہ سے ھند یہودیوں کے لئے اس لئے باعث دلچسپی تھا کہ احادیث کے مطابق اسی خطے سے اسلام نے ایک بار پھر عروج حاصل کرنا ہے۔یہودی اسلام کے بارے اتنا جانتے ہیں کہ ایک عام مسلمان عمر بھر نہیں جان پاتا۔ چنانچہ جب پاکستان کی تخلیق ہوئی اسی روز اہل یہود کو علم ہوگیا کہ ہاں یہی وہ ریاست ہوگی جس نے اسلام کو زمانے میں احیاء بخشنا ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں پاکستان واحد ایسی ریاست ہے جس کی تخلیق کی وجہ کوئی مذہب تھا۔ اس سے پہلے تاریخ میں ایسے کسی ملک کی پیدائش کا واقعہ نہیں ملتا جسے صرف ایک مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا ھو۔ یہاں ایک غیرمتعلقہ سی بات ہے کہ میں ہمیشہ اس بات سے بہت حیرت زدہ رہا ہوں کہ پاکستان بننے کی مخالفت انگریزوں اور ہندوؤں سے زیادہ ہمارے اس دور کے علماء کی جانب سے کی جاتی رہی ہے جو آج انڈیا میں سب سے زیادہ مودی کے ہاتھوں دکھی بھی ہیں۔ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ ان احادیث اور پاکستان کی اسلام کے نام پر تخلیق کی وجہ سے اہل یہود کو علم ہوگیا کہ یہی وہ ملک ہے جو ان کے آئندہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا کے تمام مذاہب کے انسانوں کو انہوں نے خدا اور ان کے مذاہب سے دور کرکے ان کے اندر سے روحانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے ان کو مادیت پرستی پر لگا دیا ہے۔ آج یورپ امریکہ میں خاندانی نظام مکمل تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے، شادی وغیرہ کا تصور بھی آہستہ آھستہ ختم کر دیا گیا ہے۔انسانوں کو مشینی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیاہے۔ آج دنیا میں اگر مذہبی اقدار زندہ ہیں تو صرف پاکستان میں ہی ہیں جہان پر ان کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ناصرف زندہ ہے بلکہ دنیا بھر میں یہاں سے جماعتیں اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مغرب اور امریکہ مکمل طور پر پنجہ یہود میں پھنس چکے ہیں۔ وہاں کی معیشت سیاست ثقافت صحافت وغیرہ سب یہودیوں کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ آج وہاں کی عوام کو صرف وہی دکھایا جاتا ہے جو یہودی دکھانے چاہتے ہیں وہی سوچتے ہیں جو یہودی ان کے زہنوں میں بٹھا دیتے ہیں۔
پاکستان کو کچھ دیر یہیں چھوڑ کر ہم باقی دنیا کی طرف آتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی پچھلی صدی کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے کس کا منصوبہ تھا؟۔
یورپ کی معیشت کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے بعد زیرزمین یہودیوں کی خفیہ تنظیموں نے اس بات کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا کہ دنیا کو اپنے غلام بنانے کے لئے اپنے دائرہ اختیار کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ پچھلی کئی صدیوں سے ان کے زہن میں منصوبہ تھا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا میں جنگوں کا ایک سلسلہ چھیڑنا پڑے گا جس کی مدد سے اولڈ ورلڈ آرڈر (پرانے ورلڈ آرڈر) کا خاتمہ کیا جائے گا جبکہ نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) کے قیام کو ممکن بنایا جائے گا۔ اس پورے منصوبے کو واضح شکل میں البرٹ پائیک نے پیش کیا جو کہ فری میسنری کے اینشینٹ اور ایکسیپٹڈ سکاٹش رائٹ میں ساورن گرینڈ کمانڈر کے کے درجے پر فائز تھا جبکہ یہ امریکا میں سب سے بڑا الومیناتی تھا۔ اس شخص نے اپنے گوسسیپی میزینی کے نام خط میں اس طرح سے لکھا تھا
(خط کی تاریخ 15اگست 1871 ءتھی )
’پہلی بین الاقوامی جنگ اس لئے چھیڑنی ہو گی تاکہ روس کو تباہ کیا جا سکے اور اس پر الومیناتی ایجنٹوں کی حکومت قائم کی جاسکے۔ روس کو بعد میں ایک خطرناک ملک کی شکل دی جائے گی تاکہ الومیناتی کا پلان آگے بڑھایا جاسکے ۔
دوسری جنگ کے دوران اس کشمکش سے جو کہ جرمن قوم پرستوں اور سیاسی صیہونیوں کے درمیان پائی جاتی ہے ، فائدہ اٹھانا ہو گا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں روس کے اثر رسوخ کو بڑھایا جائے گا اور ارض فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کو ممکن بنا دیا جائے گا۔
جبکہ تیسری جنگ کی منصوبہ بندی اس طرح سے کی گئی ہے کہ الومیناتی ایجنٹ صیہونی ریاست اور عربوں کے درمیان اختلافات کو ہوادی جائے گی ۔ یہ جھڑپ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور اس کے ذریعے بے دین دہریوں کو سامنے رکھ کر ایک انقلابی تبدیلی لائی جائے گی جس سے تمام معاشرے متاثر ہوں گے ۔ اس جنگ میں لادینیت اور وحشیوں کے انقلاب کو اتنی بھیانک طرح سے دکھایا جائے گا کہ لوگ اس سے پناہ مانگے گیں اور ان تمام چیزوں کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے جو ان انقلابیوں سے منسلک ہو گی ۔ حتی کہ وہ عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو بھی انتشار کا شکار پائیں گے اور اس وجہ سے وہ تمام مذاہب پر چڑھ دوڑیں گے، جس کے بعد وہ خود کو صحیح راستہ لوسیفر کے صاف اور روشنی بھرے راستے میں پائیں گے۔ اس طرح سے ہم ایک ہی وقت میں عیسائیت اور لادینیت دونوں پر قابو پالیں گے۔‘
صرف اسی بات سے اندازہ لگا لیجئیے یہودی کتنا آگے سوچتے ہیں۔ آج تیسری جنگ کے بادل پوری دنیا کے سر پر منڈلا رھے ھیں جس کے بارے امریکہ کا کٹر الومیناتی صدر بش 2001 میں صلیبی جنگ کے نام سے اعلان کر چکا ہے اور پوپ چند روز پہلے تک تیسری عالمی جنگ کا آغاز کہہ چکا ہے۔
یہودی مذاہب کو کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟۔
یہودیوں کی کتاب پروٹوکولز کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو تمام پروٹوکولز کے مقاصد کاخلاصہ مندرجہ ذیل حاصل ہوتا ہے۔
تمام مذاہب کا خاتمہ ۔
تمام منظم حکومتوں کا خاتمہ ۔
حب الوطنی کا خاتمہ۔
تمام ذاتی جائیداد کا خاتمہ۔
خاندانی ڈھانچہ کا خاتمہ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قیام یا ایک بین الا قوامی حکومت
کا قیام، جسے آپ عالمی دجالی حکومت کہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ خدا کی لعنت یافتہ اور پیغمبروں کی قاتل قوم جب رحمت الیہی سے محروم ہوئی تو شیطان کے چنگل میں پھنس گئی تھی ، اور شیطان تو خدا اور خدا کی مخلوق کا کھلا دشمن ہے جو اس دنیا سے ھر مذہب کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ اور دجال ان کا مسیحا ہے جس کے سامنے شیطان بھی پانی بھرتا ہوگا۔
یہودی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کونسے ھتکنڈے کیسے استعمال کر رہے ہیں؟۔
خدا کی اس ملعون قوم کی ہزاروں سال کی جدوجہد کا مقصد دنیا میں ایک بار پھر یہودیت کی بالادستی اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے۔ اس مقصد کی کامیابی کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام انسانوں کے سوچنے کے انداز کو صرف ایک سمت میں متیعن کرنا ہے جبکہ مذاہب کی موجودگی میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اس مشکل کا حل نکالنے کے لئے یہودیوں نے ایسی لاتعداد خفیہ اور زیر زمین تنظیمیں قائم کی جو دنیا میں مختلف ناموں اور مقاصد کو لییکر پھیل گئیں۔ ان سب تنظیموں کی مرکزی تنظیم الومیناتی کے نام سے جانی جاتی ہے جو تمام ذیلی تنظیموں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ زیرزمین تنظیم وہی ہے جس نے سازش کے ذریعہ حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔یہ تنظیم ہر زمانے میں مضبوط اور مستحکم رہی ہے۔الومیناتی کا نظام یکم مئی 1776ء کو ان یہودیوں کے ہاتھ میں آیا تھا جو دجال کو مسیحا اور نجات دہندہ مانتے ہیں ۔ اس کا روح رواں ڈاکٹر ایڈم ویرشیپٹ تھا جو کہ باویریا (یہ جرمنی کا ایک سب سے مظبوط اور طاقتور صوبہ ہے ) کی اینگولسسٹیڈ یونیورسٹی کا ایک پروفیسر تھا ۔ یہ شخص ویسے تو ایک کٹر یہودی تھا لیکن بعد میں یہود کی روایتی دروغ گوئی کے مطابق اس نے اپنا اصل مذہب چھپانے کے لئے کیتھولک مذہب اپنا لیا تھا ۔ وہ ایک سابقہ جیسٹ پریسٹ تھا جو کہ اس آرڈر سے الگ ہو گیا تھا ۔ الومیناتی کا لفظ لوسیفر سے اخذ کیا گیا ہے جس کا انجیل کے مطابق مطلب روشنی کو اٹھانے والا اور حد سے زیادہ ذہین ہے۔ لوسیفر درحقیقت انجیل اور تورات میں ابلیس کو دیا ہوا نام ہے ۔
ویرشیپٹ اور اس کے پیروکار وںکا سب سے بڑا مقصد نولس آرڈو سیکلرم کا قیام تھا ۔
نولس آرڈو سیکلرم کا مطلب ہوتا ہے نیو سیکولر آرڈر یہی لفظ فری میسن کے لاجز اور امریکی ایک ڈالر کے نوٹ پر لکھا ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ اگرچہ اس کا مفہوم نیو ورلڈ آرڈر ضرور ہے لیکن اس کا مطلب ایک عالمی لا دینی (سیکولر ) طرز حکومت کا قیام ہے ۔
اس تنظیم سے وابستہ ہونے والے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ الومیناتی کا مقصد انسانی نسل کو قوم ، حیثیت اور پیشے سے بالا تر ہو کر ایک خوشحال خاندان میں تبدیل کرنا تھا۔ اس کام کے لئے ان سے ایک حلف بھی لیا گیا تھا جو کہ فری میسن کے حلف کی طرح ہوتا ہے جب تک کارکنوں کی وفاداری کو جانچ نہیں لیا گیا تھا، اس وقت تک ان کو الومیناتی میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور جب تک کوئی رکن الومیناتی کے بالکل اندرونی حلقے تک نہیں پہنچ جاتا تھا، اس وقت تک اسے ادارے کا مقصد نہیں بتایا جاتا تھا۔
ایک فری میسن جس کا نام کومٹ ڈی ویرا تھا ایک بار وہ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد بتانے پر رضامند ہوا اس کا کہنا تھا۔
’میں اسے آپ کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتا ہوں ، میں بس اتنا کہ سکتا ہوں کہ یہ اس سے بہت ذیادہ سنگین ہے جتنا کہ تم سمجھتے ہو۔ اس سازش کے جال کو اتنی اچھی طرح سے بنا گیا ہے کہ بادشاہتوں اور گرجا گھروں (کلیسا) کا اس سے بچنا ناممکن نظر آتا ہے۔
یہاں البرٹ پائیک کے الفاظ پر بھی غور کیجئیے۔
ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ
’ہم ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں لیکن یہ وہ خدا ہے جس پر ہم سب بغیر توہمات کے یقین کرتے ہیں۔ میں تم ساورن گرینڈ انسٹرکشن جنرل سے کہتا ہوں کہ تم یہ اپنے تیس ، اکتیس اور بتیس ڈگریوں کے بھائیوں کے سامنے یہ بات دہرانا:
میسونک (فری میسن) مذہب کے تمام اونچی ڈگری کے ممبروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مذہب کو اس خالص شکل میں لوسیفر یعنی شیطان کے نظرئیے کو مدنظر رکھتے ہوئے برقرار رکھا جائے ۔
’اگر لوسیفر خدا نہ ہوتا تو کیا ایڈونے ، خدا ہے؟ (یعنی خیر کا خالق ، مراد اللہ رب العالمین ہیں) جس کا کام ہی انسا ن سے نفرت ، سفاکیت اور سائنس سے دور رہنے کی تلقین ہے۔
’ہاں لوسیفر ہی خدا ہے اور بد قسمتی سے ایڈونے بھی خدا ہے۔ ابدی قانون کے تحت ۔ کیونکہ روشنی کا تصور تاریکی کے بغیر نا ممکن ہے ، جیسے خوبصورتی کا بدصورتی کے بغیر اور سفید کا سیاہ کے بغیر ۔ اسی طرح ہمیشہ کے لئے دو خدا ہی زندہ رہ سکتے ہیں (معاذاللہ!) اندھیرا ہی روشنی کو پھیلاتا ہے۔ ایک موت کے لئے بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی گاڑی میں بریک کا ہونا ضروری ہوتا ہے(معاذاللہ!) ’شیطانیت کا نظریہ محض ایک افواہ ہے اور سچا خالص مذہب لوسیفر (ابلیس) کا مذہب ہے جو کہ ایڈونے کے برابر ہے (معاذاللہ!) لیکن لوسیفر جو کہ روشنی کا خدا اور اچھائی کا خدا ہے وہ انسانیت کے لئے محنت کر رہا ہیایڈونے کے خلاف جو کہ تاریکیوں اور برائی کا خدا ہے۔ (معاذاللہ!)
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ الومیناتی گروہ کے کیا نظریات ہیں اور وہ کس کو پوجتے ہیں۔
فری میسنری اور الومیناتی ایک ہی ہیں۔ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ گویا یہودیت کی تمام شاخیں واضح طور پر شیطان کا پیروکار بن کر شیطان کے سب سے بڑے آلہ کار دجال کے لئے کام کر رہی ہے۔
امریکہ کو الومیناتی کیسے کنٹرول کر رہی ہے؟ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کا نام کونسل آف فارن ریلیشنز ہے جس کا مخفف سی ایف آر ہے ۔بظاہر یہ
ایک امریکی تھنک ٹینک ہے لیکن در حقیقت یہ امریکا میں ایک چھپی ہوئی حکومت ہے ایسی حکومت جو دجال کی راہ ہموار کرنے کے لئے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ براعظم کو استعمال کر رہی ہے ۔ اس کے قیام میں عالمی یہودی بینکروں اور الومیناتی صیہونیوں کا ہاتھ تھا جن میں جیکب شف ، پال واربرگ، جان ڈی راک فیلر اور جے پی مورگنجیسے بین الا قوامی بینکر تھے۔یہ وہی لوگ جنہوں نے فیڈرل ریزو سسٹم کے تحت امریکا کو اپنا غلام بنا لیا ۔ یہ تھنک ٹینک اور ایسے کئی تھنک ٹینک امریکی صدور کو بین الاقوامی پالیسیاں مرتب کرکے دیتے ہیں جن پر ہر صورت میں امریکی صدر کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ان تھنک ٹینکس میں انتہائی زہین اور کٹر یہودی شامل ہوتے ہیں ، یہی لوگ اپنی مرضی پر چلنے والے شخص کو منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی انتخابی مہم چلاتے ہیں۔اس لئے عام طور پر امریکی صدر کو بے اختیار سمجھا جاتا ہے جس کی اصل لگام یہودی تھنک ٹینکس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ امریکی عوام بھلے ہی لاکھ احتجاج کرتے رہیں امریکی افواج کو دنیا کے اس خطے میں جنگ کے لئے بھجوایا جاتا ہے جہاں صدر امریکہ کی مرضی ہوتی ہے اور صدر امریکہ کی وہی مرضی ہوتی جو جو الومیناتی تنظیم سے تعلق رکھنے والے یہودی تھنک ٹینکس کی ہوتی ہے۔ ایک طرف یہودی اپنی چالبازیوں سے دنیا کی سب سے طاقتور اور جدیدترین فوج والی امریکی حکومت پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں دوسری طرف ورلڈبینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے ذریعے دنیا کے ممالک کو مقروض کرکے ان ممالک کو اپنا غلام بنا چکے ہیں۔ آج بھی پاکستان جیسے ملک میں ٹیکس بھی انہی عالمی اداروں کی مرضی پر لگائے جاتے ہیں اور ان کی پالیسیاں انہی مالیاتی اداروں کے حکم پر مرتب کی جاتی ہیں۔ ان کا تیسرا بڑا میدان میڈیا ہے جس پر میں کئی بار تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں۔
اہل مغرب کو لادینیت کی طرف دھکیل کر، ان کی معاشرت کو تباہ کرنے کے بعد اور ان پر غلبہ پانے کے بعد۔۔۔۔۔۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کو عیاشی کی راہ پر لگا کر ان کو بزدل بنا کر اور ان کی مہار امریکہ بہادر کے ہاتھ میں دینے کے بعد۔۔۔۔۔۔مشرق وسطیٰ کو بارود کا ڈھیر بنا کر ، شیعہ سنی فساد کی آگ لگا کر اور وہاں داعش جیسی اسلام دشمن تنظیموں کو جنم دینے کے بعد۔۔۔۔۔یودیوں کی پوری توجہ پاکستان پر ہے۔۔۔وہ پاکستان جس کے بارے احادیث میں اشارے پڑھ چکے ہیں کہ یہی خطہ اسلام کا اصلی قلعہ ثابت ہوگا، وہ پاکستان جسےبن گوریان نے یہود کا دنیا میں سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا اور وہی پاکستان جہاں پوری کوشش اور این جی اوز ۔ لبرل صحافیوں اور بکاؤ میڈیا کی کوششوں کے باوجود لادینیت فروغ نہیں پا سکی۔۔ اس پاکستان کو یہ مختلف حربوں سے کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کتنے ہی فتنے یہاں آئے دن پیدا کئے جاتے رھتے ہیں کتنی ہی بار یہاں فرقہ ورانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ابھی تک وہ ناکام ہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔ میرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ملک کی طرف رخ کرکے ہمیشہ دعا کی تھی۔ آپؐ کو ہمیشہ ادھر سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔اس لئے یہاں اسلام پہلے سے بھی زیادہ توانا ہے۔ ہماری تمام تر بداعمالیوں کے باوجود اللہ کو اپنے محبوبؐ کی محبوب سرزمین سے محبت ہے۔ اگلے تین سال کے تک اس ملک میں ایک فتنے کو اہل یہود بھیجنے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ اس عورت کو دن رات تیار کیا جا رہا ہے پہلے اس کے لئے دنیا بھر کی ہمدردیاں اکٹھی کی گئیں۔پھر انعامات میڈلز کے ذریعے مقبول عام بنایا گیا۔پاکستانی میڈیا کے ذریعے اسے ہر لمحہ پروموٹ کیا گیا ۔ اسے پاکستانیوں کو نجات دہندہ بنا کر یہاں بھجا جائے گا۔وہ یہاں یہودیوں کے اس مشن کے لئے کام کرے گی جس میں آج تک یہودی ناکام ہیں اور ا ن شاءاللہ ہمیشہ ناکام رہیں گے۔وہ مشن یہاں سے کے لوگوں کو ان کے دین سے دور کرنے کا مشن ہوگا۔ وہ بظاہر بہت نیک و کار پرہیزگار اور انسانیت سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی اس کے آنے سے ملک میں خوشحالی کی لہر پیدا کر دی جائے گی ۔لیکن اس کا مقصد ایک ہی ہوگا۔۔۔۔اسلام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا۔۔ تاکہ دجالیت کی راہ ہموار کی جاسکے۔۔۔اللہ پاک ہماری قوم کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور ایمان پر ہمیشہ قائم رکھے آمین۔