Sunday, 22 November 2015

پاکستان اور یہودی سازشیں

میں اپنے مضمون کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے کروں گا ۔
میں عرب میں ہوں لیکن مجھ میں عرب نہیں ہے ، میں ھند میں نہیں ہوں لیکن ھند مجھ میں ھے۔
۔ڈیوڈ بن گوریان نے 1968 میں عرب اسرائیل جنگ کی فتح کا جشن منانے کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ، ہمیں کسی عرب ملک سے خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بن گوریان جس زمانے میں پاکستان کے لئے یہ الفاظ کہے تھے اس وقت تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا بلکہ اندرونی بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ایک کمزور ملک تھا۔ اس کے باوجود ان کو آج بھی پاکستان سے خوف ہے، خطرہ ہے۔ آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ آج سے چودہ سو سال پہلے مخبر صادق آقائے دوجہاں محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ نے ادا فرمائے تھے۔ یہودیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی سچائی پر اور آپ ؐ پر اتنا یقین اور ایمان ہے کہ اگر وہ کلمہ پڑھ لیں تو ھم سے زیادہ پختہ ایمان والے مسلمان ثابت ھوں۔ قرآن حکیم میں دو جگہ ارشاد ربانی ہے۔
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے (اہل یہود نصاریٰ) وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح (لوگ)اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے وہ ایمان نہیں لاسکتے۔ سورہ الانعام۔
یہودیوں کو آپؐ کی آمد کے وقت کا بھی اتنا علم تھا کہ اس زمانے میں بہت سے ایسے اہل ایمان یہودی آپؐ کی آمدسے کچھ عرصہ پہلے دوردراز سے سفر کرکے مکہ پہنچے تھے جنہوں نے اپنی کتابوں میں آپؐ کے بارے پڑھ رکھا تھا۔ حدیث کے ان الفاظ کی وجہ سے ھند یہودیوں کے لئے اس لئے باعث دلچسپی تھا کہ احادیث کے مطابق اسی خطے سے اسلام نے ایک بار پھر عروج حاصل کرنا ہے۔یہودی اسلام کے بارے اتنا جانتے ہیں کہ ایک عام مسلمان عمر بھر نہیں جان پاتا۔ چنانچہ جب پاکستان کی تخلیق ہوئی اسی روز اہل یہود کو علم ہوگیا کہ ہاں یہی وہ ریاست ہوگی جس نے اسلام کو زمانے میں احیاء بخشنا ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں پاکستان واحد ایسی ریاست ہے جس کی تخلیق کی وجہ کوئی مذہب تھا۔ اس سے پہلے تاریخ میں ایسے کسی ملک کی پیدائش کا واقعہ نہیں ملتا جسے صرف ایک مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا ھو۔ یہاں ایک غیرمتعلقہ سی بات ہے کہ میں ہمیشہ اس بات سے بہت حیرت زدہ رہا ہوں کہ پاکستان بننے کی مخالفت انگریزوں اور ہندوؤں سے زیادہ ہمارے اس دور کے علماء کی جانب سے کی جاتی رہی ہے جو آج انڈیا میں سب سے زیادہ مودی کے ہاتھوں دکھی بھی ہیں۔ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ ان احادیث اور پاکستان کی اسلام کے نام پر تخلیق کی وجہ سے اہل یہود کو علم ہوگیا کہ یہی وہ ملک ہے جو ان کے آئندہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا کے تمام مذاہب کے انسانوں کو انہوں نے خدا اور ان کے مذاہب سے دور کرکے ان کے اندر سے روحانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے ان کو مادیت پرستی پر لگا دیا ہے۔ آج یورپ امریکہ میں خاندانی نظام مکمل تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے، شادی وغیرہ کا تصور بھی آہستہ آھستہ ختم کر دیا گیا ہے۔انسانوں کو مشینی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیاہے۔ آج دنیا میں اگر مذہبی اقدار زندہ ہیں تو صرف پاکستان میں ہی ہیں جہان پر ان کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ناصرف زندہ ہے بلکہ دنیا بھر میں یہاں سے جماعتیں اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مغرب اور امریکہ مکمل طور پر پنجہ یہود میں پھنس چکے ہیں۔ وہاں کی معیشت سیاست ثقافت صحافت وغیرہ سب یہودیوں کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ آج وہاں کی عوام کو صرف وہی دکھایا جاتا ہے جو یہودی دکھانے چاہتے ہیں وہی سوچتے ہیں جو یہودی ان کے زہنوں میں بٹھا دیتے ہیں۔
پاکستان کو کچھ دیر یہیں چھوڑ کر ہم باقی دنیا کی طرف آتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی پچھلی صدی کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے کس کا منصوبہ تھا؟۔
یورپ کی معیشت کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے بعد زیرزمین یہودیوں کی خفیہ تنظیموں نے اس بات کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا کہ دنیا کو اپنے غلام بنانے کے لئے اپنے دائرہ اختیار کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ پچھلی کئی صدیوں سے ان کے زہن میں منصوبہ تھا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا میں جنگوں کا ایک سلسلہ چھیڑنا پڑے گا جس کی مدد سے اولڈ ورلڈ آرڈر (پرانے ورلڈ آرڈر) کا خاتمہ کیا جائے گا جبکہ نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) کے قیام کو ممکن بنایا جائے گا۔ اس پورے منصوبے کو واضح شکل میں البرٹ پائیک نے پیش کیا جو کہ فری میسنری کے اینشینٹ اور ایکسیپٹڈ سکاٹش رائٹ میں ساورن گرینڈ کمانڈر کے کے درجے پر فائز تھا جبکہ یہ امریکا میں سب سے بڑا الومیناتی تھا۔ اس شخص نے اپنے گوسسیپی میزینی کے نام خط میں اس طرح سے لکھا تھا
(خط کی تاریخ 15اگست 1871 ءتھی )
’پہلی بین الاقوامی جنگ اس لئے چھیڑنی ہو گی تاکہ روس کو تباہ کیا جا سکے اور اس پر الومیناتی ایجنٹوں کی حکومت قائم کی جاسکے۔ روس کو بعد میں ایک خطرناک ملک کی شکل دی جائے گی تاکہ الومیناتی کا پلان آگے بڑھایا جاسکے ۔
دوسری جنگ کے دوران اس کشمکش سے جو کہ جرمن قوم پرستوں اور سیاسی صیہونیوں کے درمیان پائی جاتی ہے ، فائدہ اٹھانا ہو گا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں روس کے اثر رسوخ کو بڑھایا جائے گا اور ارض فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کو ممکن بنا دیا جائے گا۔
جبکہ تیسری جنگ کی منصوبہ بندی اس طرح سے کی گئی ہے کہ الومیناتی ایجنٹ صیہونی ریاست اور عربوں کے درمیان اختلافات کو ہوادی جائے گی ۔ یہ جھڑپ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور اس کے ذریعے بے دین دہریوں کو سامنے رکھ کر ایک انقلابی تبدیلی لائی جائے گی جس سے تمام معاشرے متاثر ہوں گے ۔ اس جنگ میں لادینیت اور وحشیوں کے انقلاب کو اتنی بھیانک طرح سے دکھایا جائے گا کہ لوگ اس سے پناہ مانگے گیں اور ان تمام چیزوں کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے جو ان انقلابیوں سے منسلک ہو گی ۔ حتی کہ وہ عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو بھی انتشار کا شکار پائیں گے اور اس وجہ سے وہ تمام مذاہب پر چڑھ دوڑیں گے، جس کے بعد وہ خود کو صحیح راستہ لوسیفر کے صاف اور روشنی بھرے راستے میں پائیں گے۔ اس طرح سے ہم ایک ہی وقت میں عیسائیت اور لادینیت دونوں پر قابو پالیں گے۔‘
صرف اسی بات سے اندازہ لگا لیجئیے یہودی کتنا آگے سوچتے ہیں۔ آج تیسری جنگ کے بادل پوری دنیا کے سر پر منڈلا رھے ھیں جس کے بارے امریکہ کا کٹر الومیناتی صدر بش 2001 میں صلیبی جنگ کے نام سے اعلان کر چکا ہے اور پوپ چند روز پہلے تک تیسری عالمی جنگ کا آغاز کہہ چکا ہے۔
یہودی مذاہب کو کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟۔
یہودیوں کی کتاب پروٹوکولز کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو تمام پروٹوکولز کے مقاصد کاخلاصہ مندرجہ ذیل حاصل ہوتا ہے۔
تمام مذاہب کا خاتمہ ۔
تمام منظم حکومتوں کا خاتمہ ۔
حب الوطنی کا خاتمہ۔
تمام ذاتی جائیداد کا خاتمہ۔
خاندانی ڈھانچہ کا خاتمہ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قیام یا ایک بین الا قوامی حکومت
کا قیام، جسے آپ عالمی دجالی حکومت کہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ خدا کی لعنت یافتہ اور پیغمبروں کی قاتل قوم جب رحمت الیہی سے محروم ہوئی تو شیطان کے چنگل میں پھنس گئی تھی ، اور شیطان تو خدا اور خدا کی مخلوق کا کھلا دشمن ہے جو اس دنیا سے ھر مذہب کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ اور دجال ان کا مسیحا ہے جس کے سامنے شیطان بھی پانی بھرتا ہوگا۔
یہودی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کونسے ھتکنڈے کیسے استعمال کر رہے ہیں؟۔
خدا کی اس ملعون قوم کی ہزاروں سال کی جدوجہد کا مقصد دنیا میں ایک بار پھر یہودیت کی بالادستی اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے۔ اس مقصد کی کامیابی کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام انسانوں کے سوچنے کے انداز کو صرف ایک سمت میں متیعن کرنا ہے جبکہ مذاہب کی موجودگی میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اس مشکل کا حل نکالنے کے لئے یہودیوں نے ایسی لاتعداد خفیہ اور زیر زمین تنظیمیں قائم کی جو دنیا میں مختلف ناموں اور مقاصد کو لییکر پھیل گئیں۔ ان سب تنظیموں کی مرکزی تنظیم الومیناتی کے نام سے جانی جاتی ہے جو تمام ذیلی تنظیموں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ زیرزمین تنظیم وہی ہے جس نے سازش کے ذریعہ حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔یہ تنظیم ہر زمانے میں مضبوط اور مستحکم رہی ہے۔الومیناتی کا نظام یکم مئی 1776ء کو ان یہودیوں کے ہاتھ میں آیا تھا جو دجال کو مسیحا اور نجات دہندہ مانتے ہیں ۔ اس کا روح رواں ڈاکٹر ایڈم ویرشیپٹ تھا جو کہ باویریا (یہ جرمنی کا ایک سب سے مظبوط اور طاقتور صوبہ ہے ) کی اینگولسسٹیڈ یونیورسٹی کا ایک پروفیسر تھا ۔ یہ شخص ویسے تو ایک کٹر یہودی تھا لیکن بعد میں یہود کی روایتی دروغ گوئی کے مطابق اس نے اپنا اصل مذہب چھپانے کے لئے کیتھولک مذہب اپنا لیا تھا ۔ وہ ایک سابقہ جیسٹ پریسٹ تھا جو کہ اس آرڈر سے الگ ہو گیا تھا ۔ الومیناتی کا لفظ لوسیفر سے اخذ کیا گیا ہے جس کا انجیل کے مطابق مطلب روشنی کو اٹھانے والا اور حد سے زیادہ ذہین ہے۔ لوسیفر درحقیقت انجیل اور تورات میں ابلیس کو دیا ہوا نام ہے ۔
ویرشیپٹ اور اس کے پیروکار وںکا سب سے بڑا مقصد نولس آرڈو سیکلرم کا قیام تھا ۔
نولس آرڈو سیکلرم کا مطلب ہوتا ہے نیو سیکولر آرڈر یہی لفظ فری میسن کے لاجز اور امریکی ایک ڈالر کے نوٹ پر لکھا ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ اگرچہ اس کا مفہوم نیو ورلڈ آرڈر ضرور ہے لیکن اس کا مطلب ایک عالمی لا دینی (سیکولر ) طرز حکومت کا قیام ہے ۔
اس تنظیم سے وابستہ ہونے والے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ الومیناتی کا مقصد انسانی نسل کو قوم ، حیثیت اور پیشے سے بالا تر ہو کر ایک خوشحال خاندان میں تبدیل کرنا تھا۔ اس کام کے لئے ان سے ایک حلف بھی لیا گیا تھا جو کہ فری میسن کے حلف کی طرح ہوتا ہے جب تک کارکنوں کی وفاداری کو جانچ نہیں لیا گیا تھا، اس وقت تک ان کو الومیناتی میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور جب تک کوئی رکن الومیناتی کے بالکل اندرونی حلقے تک نہیں پہنچ جاتا تھا، اس وقت تک اسے ادارے کا مقصد نہیں بتایا جاتا تھا۔
ایک فری میسن جس کا نام کومٹ ڈی ویرا تھا ایک بار وہ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد بتانے پر رضامند ہوا اس کا کہنا تھا۔
’میں اسے آپ کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتا ہوں ، میں بس اتنا کہ سکتا ہوں کہ یہ اس سے بہت ذیادہ سنگین ہے جتنا کہ تم سمجھتے ہو۔ اس سازش کے جال کو اتنی اچھی طرح سے بنا گیا ہے کہ بادشاہتوں اور گرجا گھروں (کلیسا) کا اس سے بچنا ناممکن نظر آتا ہے۔
یہاں البرٹ پائیک کے الفاظ پر بھی غور کیجئیے۔
ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ
’ہم ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں لیکن یہ وہ خدا ہے جس پر ہم سب بغیر توہمات کے یقین کرتے ہیں۔ میں تم ساورن گرینڈ انسٹرکشن جنرل سے کہتا ہوں کہ تم یہ اپنے تیس ، اکتیس اور بتیس ڈگریوں کے بھائیوں کے سامنے یہ بات دہرانا:
میسونک (فری میسن) مذہب کے تمام اونچی ڈگری کے ممبروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مذہب کو اس خالص شکل میں لوسیفر یعنی شیطان کے نظرئیے کو مدنظر رکھتے ہوئے برقرار رکھا جائے ۔
’اگر لوسیفر خدا نہ ہوتا تو کیا ایڈونے ، خدا ہے؟ (یعنی خیر کا خالق ، مراد اللہ رب العالمین ہیں) جس کا کام ہی انسا ن سے نفرت ، سفاکیت اور سائنس سے دور رہنے کی تلقین ہے۔
’ہاں لوسیفر ہی خدا ہے اور بد قسمتی سے ایڈونے بھی خدا ہے۔ ابدی قانون کے تحت ۔ کیونکہ روشنی کا تصور تاریکی کے بغیر نا ممکن ہے ، جیسے خوبصورتی کا بدصورتی کے بغیر اور سفید کا سیاہ کے بغیر ۔ اسی طرح ہمیشہ کے لئے دو خدا ہی زندہ رہ سکتے ہیں (معاذاللہ!) اندھیرا ہی روشنی کو پھیلاتا ہے۔ ایک موت کے لئے بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی گاڑی میں بریک کا ہونا ضروری ہوتا ہے(معاذاللہ!) ’شیطانیت کا نظریہ محض ایک افواہ ہے اور سچا خالص مذہب لوسیفر (ابلیس) کا مذہب ہے جو کہ ایڈونے کے برابر ہے (معاذاللہ!) لیکن لوسیفر جو کہ روشنی کا خدا اور اچھائی کا خدا ہے وہ انسانیت کے لئے محنت کر رہا ہیایڈونے کے خلاف جو کہ تاریکیوں اور برائی کا خدا ہے۔ (معاذاللہ!)
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ الومیناتی گروہ کے کیا نظریات ہیں اور وہ کس کو پوجتے ہیں۔
فری میسنری اور الومیناتی ایک ہی ہیں۔ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ گویا یہودیت کی تمام شاخیں واضح طور پر شیطان کا پیروکار بن کر شیطان کے سب سے بڑے آلہ کار دجال کے لئے کام کر رہی ہے۔
امریکہ کو الومیناتی کیسے کنٹرول کر رہی ہے؟ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کا نام کونسل آف فارن ریلیشنز ہے جس کا مخفف سی ایف آر ہے ۔بظاہر یہ
ایک امریکی تھنک ٹینک ہے لیکن در حقیقت یہ امریکا میں ایک چھپی ہوئی حکومت ہے ایسی حکومت جو دجال کی راہ ہموار کرنے کے لئے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ براعظم کو استعمال کر رہی ہے ۔ اس کے قیام میں عالمی یہودی بینکروں اور الومیناتی صیہونیوں کا ہاتھ تھا جن میں جیکب شف ، پال واربرگ، جان ڈی راک فیلر اور جے پی مورگنجیسے بین الا قوامی بینکر تھے۔یہ وہی لوگ جنہوں نے فیڈرل ریزو سسٹم کے تحت امریکا کو اپنا غلام بنا لیا ۔ یہ تھنک ٹینک اور ایسے کئی تھنک ٹینک امریکی صدور کو بین الاقوامی پالیسیاں مرتب کرکے دیتے ہیں جن پر ہر صورت میں امریکی صدر کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ان تھنک ٹینکس میں انتہائی زہین اور کٹر یہودی شامل ہوتے ہیں ، یہی لوگ اپنی مرضی پر چلنے والے شخص کو منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی انتخابی مہم چلاتے ہیں۔اس لئے عام طور پر امریکی صدر کو بے اختیار سمجھا جاتا ہے جس کی اصل لگام یہودی تھنک ٹینکس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ امریکی عوام بھلے ہی لاکھ احتجاج کرتے رہیں امریکی افواج کو دنیا کے اس خطے میں جنگ کے لئے بھجوایا جاتا ہے جہاں صدر امریکہ کی مرضی ہوتی ہے اور صدر امریکہ کی وہی مرضی ہوتی جو جو الومیناتی تنظیم سے تعلق رکھنے والے یہودی تھنک ٹینکس کی ہوتی ہے۔ ایک طرف یہودی اپنی چالبازیوں سے دنیا کی سب سے طاقتور اور جدیدترین فوج والی امریکی حکومت پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں دوسری طرف ورلڈبینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے ذریعے دنیا کے ممالک کو مقروض کرکے ان ممالک کو اپنا غلام بنا چکے ہیں۔ آج بھی پاکستان جیسے ملک میں ٹیکس بھی انہی عالمی اداروں کی مرضی پر لگائے جاتے ہیں اور ان کی پالیسیاں انہی مالیاتی اداروں کے حکم پر مرتب کی جاتی ہیں۔ ان کا تیسرا بڑا میدان میڈیا ہے جس پر میں کئی بار تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں۔
اہل مغرب کو لادینیت کی طرف دھکیل کر، ان کی معاشرت کو تباہ کرنے کے بعد اور ان پر غلبہ پانے کے بعد۔۔۔۔۔۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کو عیاشی کی راہ پر لگا کر ان کو بزدل بنا کر اور ان کی مہار امریکہ بہادر کے ہاتھ میں دینے کے بعد۔۔۔۔۔۔مشرق وسطیٰ کو بارود کا ڈھیر بنا کر ، شیعہ سنی فساد کی آگ لگا کر اور وہاں داعش جیسی اسلام دشمن تنظیموں کو جنم دینے کے بعد۔۔۔۔۔یودیوں کی پوری توجہ پاکستان پر ہے۔۔۔وہ پاکستان جس کے بارے احادیث میں اشارے پڑھ چکے ہیں کہ یہی خطہ اسلام کا اصلی قلعہ ثابت ہوگا، وہ پاکستان جسےبن گوریان نے یہود کا دنیا میں سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا اور وہی پاکستان جہاں پوری کوشش اور این جی اوز ۔ لبرل صحافیوں اور بکاؤ میڈیا کی کوششوں کے باوجود لادینیت فروغ نہیں پا سکی۔۔ اس پاکستان کو یہ مختلف حربوں سے کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کتنے ہی فتنے یہاں آئے دن پیدا کئے جاتے رھتے ہیں کتنی ہی بار یہاں فرقہ ورانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ابھی تک وہ ناکام ہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔ میرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ملک کی طرف رخ کرکے ہمیشہ دعا کی تھی۔ آپؐ کو ہمیشہ ادھر سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔اس لئے یہاں اسلام پہلے سے بھی زیادہ توانا ہے۔ ہماری تمام تر بداعمالیوں کے باوجود اللہ کو اپنے محبوبؐ کی محبوب سرزمین سے محبت ہے۔ اگلے تین سال کے تک اس ملک میں ایک فتنے کو اہل یہود بھیجنے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ اس عورت کو دن رات تیار کیا جا رہا ہے پہلے اس کے لئے دنیا بھر کی ہمدردیاں اکٹھی کی گئیں۔پھر انعامات میڈلز کے ذریعے مقبول عام بنایا گیا۔پاکستانی میڈیا کے ذریعے اسے ہر لمحہ پروموٹ کیا گیا ۔ اسے پاکستانیوں کو نجات دہندہ بنا کر یہاں بھجا جائے گا۔وہ یہاں یہودیوں کے اس مشن کے لئے کام کرے گی جس میں آج تک یہودی ناکام ہیں اور ا ن شاءاللہ ہمیشہ ناکام رہیں گے۔وہ مشن یہاں سے کے لوگوں کو ان کے دین سے دور کرنے کا مشن ہوگا۔ وہ بظاہر بہت نیک و کار پرہیزگار اور انسانیت سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی اس کے آنے سے ملک میں خوشحالی کی لہر پیدا کر دی جائے گی ۔لیکن اس کا مقصد ایک ہی ہوگا۔۔۔۔اسلام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا۔۔ تاکہ دجالیت کی راہ ہموار کی جاسکے۔۔۔اللہ پاک ہماری قوم کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور ایمان پر ہمیشہ قائم رکھے آمین۔

No comments:

Post a Comment