امریکہ ، کینیڈا اور یورپ کے تقریبا" 36 ممالک جہاں آزادی ء اظہار رائے اس قدر بے مہار ہے کہ اس آزادی ء بے مہار کے نام پر کسی بھی شخصیت ، کسی بھی واقعہ یا کسی بھی موضوع پر آپ کچھ بھی بول سکتے ہیں لکھ سکتے تحقیق کرسکتے ہیں ، کسی بھی مقدس و محترم ھستی کا مذاق اڑا سکتے ہیں گستاخانہ کارٹون یا خاکے بنا سکتے ھیں، وہاں " ھولوکاسٹ" پر ایک بھی لفظ نہ بول سکتے ھیں نہ لکھ سکتے نہ اس پر تحقیق کرسکتے ھیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ کو ان ممالک کے " ھولوکاسٹ " کے سخت قوانین کے تحت سزائے قید اور جرمانہ ھوسکتا ھے، حتی کہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اپنی حکومت کو اختیار دے رکھا ھے کہ دنیا میں کہیں بھی،کسی بھی جگہ کوئی شخص اگر 60 لاکھ کی تعداد کو کم بتانے کی کوشش کرے،اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس ملک سے اسے نفرت پھیلانے کے جرم میں Hate Criminal کے طور پر مانگ سکتی ہے، گرفتار کرسکتی ہے،اور سزا بھی دے سکتی ہے۔ لاتعداد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کئیے جاچکے ھیں۔
برطانیہ کی لبرل پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں صرف یہ لکھ دیا تھا کہ ’’میں ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں کے لیے پیش آئے" ناقابل یقین "واقعات پڑھ کر غم زدہ ہوجاتا ہوں، لیکن یہودی جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے ہیں، وہ کیونکر فلسطینیوں کے خلاف مظالم ڈھا رہے ہیں۔‘‘
اس بلاگ کے بعد ڈیوڈ وارڈ پر اس قدر دباؤ بڑھا کہ اسے مجبوراً معافی مانگنا پڑی ۔
ایک طرف اکیلے اسرائیل کی بدمعاشی کا یہ حال ھے اور دوسری جانب 58 مسلمان ممالک کی بے غیرتی کا یہ عالم ھے کہ اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر کوئی قانون نہیں بناسکتے۔ فلسطین میں جاری ھولوکاسٹ پر احتجاج نہیں کرسکتے۔
No comments:
Post a Comment