Friday, 4 December 2015

قرآنِ کریم دورِ حاضر کا سب سے بڑا موجزہ


سائنسدان کارل فان فرش نے شہد کی مکھیوں کی زندگی اور حالات پر ریسرچ کی ۔ اس ریسرچ کے نتیجے میں اسے سنہ ء 1973 میں نوبل پرائز ملا۔ وہ لکھتا ھے کہ شہد کی مکھی اللہ تعالیٰ کی بہت ھی زھین مخلوق ھے ۔ اس کی زھانت کا یہ عالم ھے کہ جب اس کو کسی نئی جگہ پر پھولوں کا جھنڈ ملتا ھے یا کوئی ایسا نیا پھول ملتا ھے جس سے بہترین شہد تخلیق کیا جا سکتا ھے تو وہ اپنے ساتھ والی دوسری مکھیوں کے پاس پہنچتی ھے ان کو اس پھول یا اس باغ کے بارے بتاتی ھے اس کا راستہ بتاتی ھے وہ یہ سب اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے بتاتی ھے۔ دوسری مکھیاں آسانی سے اس کا بتایا ھوا راستہ اور پھولوں کے بارے جان جاتی ھے۔ شہد کی مکھی کے اس عمل کو سائنسی نام Bee Dance دیا گیا۔ 

اس شخص نے قران پاک کے اس پیغام کے بتائے ھوئے راستے پر عمل کیا۔ " اللہ نے شہد کی مکھی کو سکھایا کہ پہاڑوں درختوں اور انسانوں کے رھنے والی جگہوں پر گھر بناؤ اور ھر قسم کے پھولوں سے شہد بناؤ اور مہارت کے ساتھ راستے پر جاؤ" سورہ نحل آیات 68/69۔۔۔

(سورہ النمل آیت 17 تا 19) ترجمہ۔اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ان کے لشکر جنّوں اور انسانوں اور پرندوں (کی تمام جنسوں) میں سے جمع کئے گئے تھے، چنانچہ وہ بغرضِ نظم و تربیت (ان کی خدمت میں) روکے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ (لشکر) چیونٹیوں کے میدان پر پہنچے تو ایک چیونٹی کہنے لگی: اے چیونٹیو! اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو۔ تو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرما لے۔

ماضی میں کچھ لوگ قرآن کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ جنوں اور پریوں کی کہانیوں کی کتاب ہے۔اس میں چیونٹیاں ایک دوسرے سے باتیں کرتی بتائی گئی ہیں۔یہ چیونٹیاں ایک دوسرے تک پیغامات بھی پہنچاتی ہیں۔

دورِ حا ضر میں وہ لوگ زندہ ہوتے تو یقینا انہیں شرمندگی ہوتی کیونکہ چیونٹیوں کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات سے کئی ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو پرانے زمانے میں انسان کے علم میں نہ تھے۔تحقیق نے ثابت کردیا کہ کچھ جانوروں اور حشرات الارض کا طرز زندگی انسانی طرز حیات سے ملتا جلتا ہے۔ جن میں چیونٹیوں بھی شامل ہیں۔چیونٹیوں کے بارے درج ذیل حقائق جدید سائنس کی روشنی میں اس بات کے ثبوت میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔

  1.  چیونٹیاں مرنے والی چیونٹیوں کو اسی طرح دفن کرتی ہیں جس طرح انسان کرتے ہیں۔
  2.  انہوں نے اپنے کام کاج کی تقسیم کررکھی ہے اور تقسیم کار کا ایک نہایت عمدہ نظام ان کے ہاں رائج ہے۔ان میں منیجر،سپروائزر،فورمین اور ورکر وغیرہ ہوتے ہیں۔
  3. یہ کبھی کبھار آپس میں مل بیٹھتی ہیں اور گپ شپ کرتی ہیں ۔
  4. باہمی بات چیت اور ابلاغ کا بھی ان کے ہاں ایک نہایت ترقی یافتہ طریقہ رائج ہے۔
  5. ان کے ہاں باقاعدہ بازار لگتے ہیں جہاں یہ اشیاء کا تبادلہ کرتی ہیں ۔
  6. چیونٹیاں موسم سرما میں طویل عرصے کے لیے اناج کا ذخیرہ کرلیتی ہیں ۔
  7. اگر اناج میں سے کونپلیں نکلنے لگیں تو یہ اس کی جڑیں کاٹ دیتی ہیں گویا یہ اس بات سے باخبر ہیں کہ اگر انھوں نے اسے اگنے دیا تو اناج ضائع ہوجائے گا۔
  8. اگر بارشوں کی وجہ سے ان کا ذخیرہ کیا ہوا اناج گیلا ہوجاتا ہے تو یہ اسے خشک کرنے کے لیے دھوپ میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ خشک ہوجائے تو چیونٹیاں اسے اندر لے جاتی ہیں جیسے ان کے علم میں ہو کہ اس اناج میں نمی آگئی تو اس کی جڑیں نکل آئیں گی اور یہ گل سٹر جائے گا۔

بہر حال یہ اللہ کی قدرت ہے جسے چاہتا ہے جتنی چاہتا ہے عقل سلیم عطا کرتا ہے۔ اور اس تحقیق سے قرآن کی حقانیت بھی واضح ہوتی ہے جس کی خبر آج سے کم و بیش چودہ سو برس پہلے ہی انسان کو اللہ تعالی نے عطاء فرما دی تھی۔

قران پاک یہ باتیں عام سی سمجھ کر ھم پڑھنے کے بعد آگے گزر جاتے ھیں۔ حالانکہ اللہ بار بار ان پر غور کرنے کی دعوت دیتا ھے۔ 

غیروں نے ایک ایک لفظ اھم جانا اس پر غور کیا اور دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔۔جن کے لئے یہ سب اتارا گیا وہ نادان محروم رہ گئے۔۔

گونگا درخت ۔غرقد

سیو غرقد ٹری! مگ قیمت 10 پاؤنڈ، سیو غرقد ٹی شرٹس 37 پاؤنڈز ، سیو غرقد پی کیپ 10 پاؤنڈز، سیو غرقد کچن ایپرن ،سیو غرقد ھینڈ بیگ، سیو غرقد شرٹ بٹن سیو غرقد اسٹیشنری، سیو غرقد ملبوسات پرفیومز، کچن کراکری، اور سیو غرقد کی ان گنت اشیاء کی فروخت ۔۔۔۔ سیو غرقد کے لئے فنڈ ریزنگ ، غرقد کے لئے چندہ مہمیں اور غرقد کی کاشت کا اسرائیلی مشن۔۔۔ ان تمام اشیاء کی فروخت کی کمائی سے حاصل ھونے والی رقم کو غرقد کی کاشت کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
یہ غرقد کیا ھے؟۔ اس کی کاشت کے لئے یہودی کیوں باؤلے ھوئے پھر رھے ھیں؟
ان تمام اشیا پر ایک درخت کی تصویر بنی ھوئی ہے اس تصویر کو توجہ سے دیکھئیے۔ اس میں ایک مرد اور ایک عورت ایک درخت کے پیچھے چھپتے ھوئے دیکھے جا سکتے ھیں۔ یہی درخت غرقد ھے۔ پورے اسرائیل میں اس درخت کو انتہائی تیزرفتاری سے کاشت کیا جا رھا ھے غرقد کی کاشت کی مہم اسرائیلی ریاست کی سطح پر چلائی جا رھی ھے۔ خود اسرائیلی وزیراعظم اس تصویر میں ایک جگہ یہی درخت لگاتا ھوا نظر آ رھا ھے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے انڈیا سے بھی کہا ھے کہ وہ اپنے ملک کی تمام بنجر اراضی پر غرقد کی کاشت کرے جس کا تمام تر معاوضہ اسرائیل برداشت کرے گا۔ کیا تمام یہودی پاگل ھوچکے ھیں؟؟؟ نہیں دنیا کے تمام وسائل پر قابض یہودی پاگل نہیں ھیں یہ بہت ذھین قوم ھے ۔ یہ قوم اپنے مذھب سے زیادہ اسلام کی سچائی پر یقین رکھتی ھے۔ ان لوگوں نے احادیث کی تمام کتابیں پڑھ رکھی ھین۔ غرقد کی کاشت کی مہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پاک کی وجہ سے چلائی جا رھی ھے۔ صحیح مسلم کی وہ حدیث مندرجہ ذیل ھے۔۔۔۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ ، فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ : يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ ، إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ " .
[صحيح مسلم » كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ » بَاب " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ ... رقم الحديث: 5207]

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ کریں اور مسلمان انہیں قتل کردیں یہاں تک کہ یہودی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپیں گے تو پتھر یا درخت کہے گا اے مسلمان اے عبداللہ یہ یہودی میرے پیچھے ہے آؤ اور اسے قتل کردو سوائے درخت غرقد کے کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔
[صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2838 / 14635حدیث مرفوع مکررات 7 متفق علیہ 6

Abu Huraira reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: The last hour would not come unless the Muslims will fight against the Jews and the Muslims would kill them until the Jews would hide themselves behind a stone or a tree and a stone or a tree would say: Muslim, or the servant of Allah, there is a Jew behind me; come and kill him; but the tree Gharqad would not say, for it is the tree of the Jews.
یہودی جانتے ھیں کہ آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والا ھر لفظ سچا ھے اور ھر قیمت پر پورا ھونے والا ھے۔ چنانچہ یہودی اس حدیث کی روشنی میں غرقد کی کاشت میں لگے ھوئے ھیں تاکہ مسلمانوں سے جنگ کے دوران جب اس زمیں کی ھر چیز پکار پکار کر کہے گی کہ اے مسلمانون میرے پیچھے ایک یہودی چھپا ھوا ھے اسے قتل کر دو تو اس وقت یہی درخت گونگا بن کر اس چھپے ھوئے یہودی کی پناہ گاہ بن جائے گا۔ یہودی جانتے ھیں ایسا ھی ھوگا۔ یہ معرکہ ھوکر رھے گا ۔۔۔۔۔ اس معرکے میں انشاللہ اس دنیا سے یہودیت کا مکمل خاتمہ ھوجائے گا اور اس دنیا کے انسان ھزاروں سال بعد اس زمین کو یہودیوں کی ساشوں سے محفوظ ایک جنت کا نمونہ پائیں گے۔
ھمارے لئے اس میں سبق کی بات یہ ھے کہ یہودی جیسے بدترین بھی ھمارے آقا ؐھؐد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ھر بات کو سچ مانتے ھیں تو کیا ھم یہودیوں سے بھی بدتر نہیں جو آپ ؐ کے احکامات کے منکر ھوچکے ھیں؟ ذرا سوچئیے گا۔۔۔۔

Sunday, 22 November 2015

پاکستان اور یہودی سازشیں

میں اپنے مضمون کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے کروں گا ۔
میں عرب میں ہوں لیکن مجھ میں عرب نہیں ہے ، میں ھند میں نہیں ہوں لیکن ھند مجھ میں ھے۔
۔ڈیوڈ بن گوریان نے 1968 میں عرب اسرائیل جنگ کی فتح کا جشن منانے کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ، ہمیں کسی عرب ملک سے خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بن گوریان جس زمانے میں پاکستان کے لئے یہ الفاظ کہے تھے اس وقت تک پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا بلکہ اندرونی بیرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ایک کمزور ملک تھا۔ اس کے باوجود ان کو آج بھی پاکستان سے خوف ہے، خطرہ ہے۔ آئیے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ آج سے چودہ سو سال پہلے مخبر صادق آقائے دوجہاں محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ نے ادا فرمائے تھے۔ یہودیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی سچائی پر اور آپ ؐ پر اتنا یقین اور ایمان ہے کہ اگر وہ کلمہ پڑھ لیں تو ھم سے زیادہ پختہ ایمان والے مسلمان ثابت ھوں۔ قرآن حکیم میں دو جگہ ارشاد ربانی ہے۔
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے (اہل یہود نصاریٰ) وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح (لوگ)اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اپنے نفس کو خسارہ میں ڈال دیا ہے وہ ایمان نہیں لاسکتے۔ سورہ الانعام۔
یہودیوں کو آپؐ کی آمد کے وقت کا بھی اتنا علم تھا کہ اس زمانے میں بہت سے ایسے اہل ایمان یہودی آپؐ کی آمدسے کچھ عرصہ پہلے دوردراز سے سفر کرکے مکہ پہنچے تھے جنہوں نے اپنی کتابوں میں آپؐ کے بارے پڑھ رکھا تھا۔ حدیث کے ان الفاظ کی وجہ سے ھند یہودیوں کے لئے اس لئے باعث دلچسپی تھا کہ احادیث کے مطابق اسی خطے سے اسلام نے ایک بار پھر عروج حاصل کرنا ہے۔یہودی اسلام کے بارے اتنا جانتے ہیں کہ ایک عام مسلمان عمر بھر نہیں جان پاتا۔ چنانچہ جب پاکستان کی تخلیق ہوئی اسی روز اہل یہود کو علم ہوگیا کہ ہاں یہی وہ ریاست ہوگی جس نے اسلام کو زمانے میں احیاء بخشنا ہے کیونکہ انسانی تاریخ میں پاکستان واحد ایسی ریاست ہے جس کی تخلیق کی وجہ کوئی مذہب تھا۔ اس سے پہلے تاریخ میں ایسے کسی ملک کی پیدائش کا واقعہ نہیں ملتا جسے صرف ایک مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا ھو۔ یہاں ایک غیرمتعلقہ سی بات ہے کہ میں ہمیشہ اس بات سے بہت حیرت زدہ رہا ہوں کہ پاکستان بننے کی مخالفت انگریزوں اور ہندوؤں سے زیادہ ہمارے اس دور کے علماء کی جانب سے کی جاتی رہی ہے جو آج انڈیا میں سب سے زیادہ مودی کے ہاتھوں دکھی بھی ہیں۔ خیر آگے بڑھتے ہیں۔ ان احادیث اور پاکستان کی اسلام کے نام پر تخلیق کی وجہ سے اہل یہود کو علم ہوگیا کہ یہی وہ ملک ہے جو ان کے آئندہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دنیا کے تمام مذاہب کے انسانوں کو انہوں نے خدا اور ان کے مذاہب سے دور کرکے ان کے اندر سے روحانی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے ان کو مادیت پرستی پر لگا دیا ہے۔ آج یورپ امریکہ میں خاندانی نظام مکمل تباہ کرکے رکھ دیا گیا ہے، شادی وغیرہ کا تصور بھی آہستہ آھستہ ختم کر دیا گیا ہے۔انسانوں کو مشینی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیاہے۔ آج دنیا میں اگر مذہبی اقدار زندہ ہیں تو صرف پاکستان میں ہی ہیں جہان پر ان کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود اسلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ناصرف زندہ ہے بلکہ دنیا بھر میں یہاں سے جماعتیں اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مغرب اور امریکہ مکمل طور پر پنجہ یہود میں پھنس چکے ہیں۔ وہاں کی معیشت سیاست ثقافت صحافت وغیرہ سب یہودیوں کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ آج وہاں کی عوام کو صرف وہی دکھایا جاتا ہے جو یہودی دکھانے چاہتے ہیں وہی سوچتے ہیں جو یہودی ان کے زہنوں میں بٹھا دیتے ہیں۔
پاکستان کو کچھ دیر یہیں چھوڑ کر ہم باقی دنیا کی طرف آتے ہیں۔ دنیا میں ہونے والی پچھلی صدی کی دو عظیم جنگوں کے پیچھے کس کا منصوبہ تھا؟۔
یورپ کی معیشت کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے بعد زیرزمین یہودیوں کی خفیہ تنظیموں نے اس بات کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا کہ دنیا کو اپنے غلام بنانے کے لئے اپنے دائرہ اختیار کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ پچھلی کئی صدیوں سے ان کے زہن میں منصوبہ تھا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے پوری دنیا میں جنگوں کا ایک سلسلہ چھیڑنا پڑے گا جس کی مدد سے اولڈ ورلڈ آرڈر (پرانے ورلڈ آرڈر) کا خاتمہ کیا جائے گا جبکہ نیو ورلڈ آرڈر (نیا عالمی نظام) کے قیام کو ممکن بنایا جائے گا۔ اس پورے منصوبے کو واضح شکل میں البرٹ پائیک نے پیش کیا جو کہ فری میسنری کے اینشینٹ اور ایکسیپٹڈ سکاٹش رائٹ میں ساورن گرینڈ کمانڈر کے کے درجے پر فائز تھا جبکہ یہ امریکا میں سب سے بڑا الومیناتی تھا۔ اس شخص نے اپنے گوسسیپی میزینی کے نام خط میں اس طرح سے لکھا تھا
(خط کی تاریخ 15اگست 1871 ءتھی )
’پہلی بین الاقوامی جنگ اس لئے چھیڑنی ہو گی تاکہ روس کو تباہ کیا جا سکے اور اس پر الومیناتی ایجنٹوں کی حکومت قائم کی جاسکے۔ روس کو بعد میں ایک خطرناک ملک کی شکل دی جائے گی تاکہ الومیناتی کا پلان آگے بڑھایا جاسکے ۔
دوسری جنگ کے دوران اس کشمکش سے جو کہ جرمن قوم پرستوں اور سیاسی صیہونیوں کے درمیان پائی جاتی ہے ، فائدہ اٹھانا ہو گا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں روس کے اثر رسوخ کو بڑھایا جائے گا اور ارض فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کو ممکن بنا دیا جائے گا۔
جبکہ تیسری جنگ کی منصوبہ بندی اس طرح سے کی گئی ہے کہ الومیناتی ایجنٹ صیہونی ریاست اور عربوں کے درمیان اختلافات کو ہوادی جائے گی ۔ یہ جھڑپ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور اس کے ذریعے بے دین دہریوں کو سامنے رکھ کر ایک انقلابی تبدیلی لائی جائے گی جس سے تمام معاشرے متاثر ہوں گے ۔ اس جنگ میں لادینیت اور وحشیوں کے انقلاب کو اتنی بھیانک طرح سے دکھایا جائے گا کہ لوگ اس سے پناہ مانگے گیں اور ان تمام چیزوں کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے جو ان انقلابیوں سے منسلک ہو گی ۔ حتی کہ وہ عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو بھی انتشار کا شکار پائیں گے اور اس وجہ سے وہ تمام مذاہب پر چڑھ دوڑیں گے، جس کے بعد وہ خود کو صحیح راستہ لوسیفر کے صاف اور روشنی بھرے راستے میں پائیں گے۔ اس طرح سے ہم ایک ہی وقت میں عیسائیت اور لادینیت دونوں پر قابو پالیں گے۔‘
صرف اسی بات سے اندازہ لگا لیجئیے یہودی کتنا آگے سوچتے ہیں۔ آج تیسری جنگ کے بادل پوری دنیا کے سر پر منڈلا رھے ھیں جس کے بارے امریکہ کا کٹر الومیناتی صدر بش 2001 میں صلیبی جنگ کے نام سے اعلان کر چکا ہے اور پوپ چند روز پہلے تک تیسری عالمی جنگ کا آغاز کہہ چکا ہے۔
یہودی مذاہب کو کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟۔
یہودیوں کی کتاب پروٹوکولز کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو تمام پروٹوکولز کے مقاصد کاخلاصہ مندرجہ ذیل حاصل ہوتا ہے۔
تمام مذاہب کا خاتمہ ۔
تمام منظم حکومتوں کا خاتمہ ۔
حب الوطنی کا خاتمہ۔
تمام ذاتی جائیداد کا خاتمہ۔
خاندانی ڈھانچہ کا خاتمہ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قیام یا ایک بین الا قوامی حکومت
کا قیام، جسے آپ عالمی دجالی حکومت کہ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ خدا کی لعنت یافتہ اور پیغمبروں کی قاتل قوم جب رحمت الیہی سے محروم ہوئی تو شیطان کے چنگل میں پھنس گئی تھی ، اور شیطان تو خدا اور خدا کی مخلوق کا کھلا دشمن ہے جو اس دنیا سے ھر مذہب کو مٹا دینا چاہتا ہے۔ اور دجال ان کا مسیحا ہے جس کے سامنے شیطان بھی پانی بھرتا ہوگا۔
یہودی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کونسے ھتکنڈے کیسے استعمال کر رہے ہیں؟۔
خدا کی اس ملعون قوم کی ہزاروں سال کی جدوجہد کا مقصد دنیا میں ایک بار پھر یہودیت کی بالادستی اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب ہے۔ اس مقصد کی کامیابی کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ دنیا بھر کے تمام انسانوں کے سوچنے کے انداز کو صرف ایک سمت میں متیعن کرنا ہے جبکہ مذاہب کی موجودگی میں ایسا ہونا ناممکن ہے۔ اس مشکل کا حل نکالنے کے لئے یہودیوں نے ایسی لاتعداد خفیہ اور زیر زمین تنظیمیں قائم کی جو دنیا میں مختلف ناموں اور مقاصد کو لییکر پھیل گئیں۔ ان سب تنظیموں کی مرکزی تنظیم الومیناتی کے نام سے جانی جاتی ہے جو تمام ذیلی تنظیموں کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ زیرزمین تنظیم وہی ہے جس نے سازش کے ذریعہ حضرت عیسیٰ ؑ کو مصلوب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔یہ تنظیم ہر زمانے میں مضبوط اور مستحکم رہی ہے۔الومیناتی کا نظام یکم مئی 1776ء کو ان یہودیوں کے ہاتھ میں آیا تھا جو دجال کو مسیحا اور نجات دہندہ مانتے ہیں ۔ اس کا روح رواں ڈاکٹر ایڈم ویرشیپٹ تھا جو کہ باویریا (یہ جرمنی کا ایک سب سے مظبوط اور طاقتور صوبہ ہے ) کی اینگولسسٹیڈ یونیورسٹی کا ایک پروفیسر تھا ۔ یہ شخص ویسے تو ایک کٹر یہودی تھا لیکن بعد میں یہود کی روایتی دروغ گوئی کے مطابق اس نے اپنا اصل مذہب چھپانے کے لئے کیتھولک مذہب اپنا لیا تھا ۔ وہ ایک سابقہ جیسٹ پریسٹ تھا جو کہ اس آرڈر سے الگ ہو گیا تھا ۔ الومیناتی کا لفظ لوسیفر سے اخذ کیا گیا ہے جس کا انجیل کے مطابق مطلب روشنی کو اٹھانے والا اور حد سے زیادہ ذہین ہے۔ لوسیفر درحقیقت انجیل اور تورات میں ابلیس کو دیا ہوا نام ہے ۔
ویرشیپٹ اور اس کے پیروکار وںکا سب سے بڑا مقصد نولس آرڈو سیکلرم کا قیام تھا ۔
نولس آرڈو سیکلرم کا مطلب ہوتا ہے نیو سیکولر آرڈر یہی لفظ فری میسن کے لاجز اور امریکی ایک ڈالر کے نوٹ پر لکھا ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ اگرچہ اس کا مفہوم نیو ورلڈ آرڈر ضرور ہے لیکن اس کا مطلب ایک عالمی لا دینی (سیکولر ) طرز حکومت کا قیام ہے ۔
اس تنظیم سے وابستہ ہونے والے لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ الومیناتی کا مقصد انسانی نسل کو قوم ، حیثیت اور پیشے سے بالا تر ہو کر ایک خوشحال خاندان میں تبدیل کرنا تھا۔ اس کام کے لئے ان سے ایک حلف بھی لیا گیا تھا جو کہ فری میسن کے حلف کی طرح ہوتا ہے جب تک کارکنوں کی وفاداری کو جانچ نہیں لیا گیا تھا، اس وقت تک ان کو الومیناتی میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور جب تک کوئی رکن الومیناتی کے بالکل اندرونی حلقے تک نہیں پہنچ جاتا تھا، اس وقت تک اسے ادارے کا مقصد نہیں بتایا جاتا تھا۔
ایک فری میسن جس کا نام کومٹ ڈی ویرا تھا ایک بار وہ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد بتانے پر رضامند ہوا اس کا کہنا تھا۔
’میں اسے آپ کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتا ہوں ، میں بس اتنا کہ سکتا ہوں کہ یہ اس سے بہت ذیادہ سنگین ہے جتنا کہ تم سمجھتے ہو۔ اس سازش کے جال کو اتنی اچھی طرح سے بنا گیا ہے کہ بادشاہتوں اور گرجا گھروں (کلیسا) کا اس سے بچنا ناممکن نظر آتا ہے۔
یہاں البرٹ پائیک کے الفاظ پر بھی غور کیجئیے۔
ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ
’ہم ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں لیکن یہ وہ خدا ہے جس پر ہم سب بغیر توہمات کے یقین کرتے ہیں۔ میں تم ساورن گرینڈ انسٹرکشن جنرل سے کہتا ہوں کہ تم یہ اپنے تیس ، اکتیس اور بتیس ڈگریوں کے بھائیوں کے سامنے یہ بات دہرانا:
میسونک (فری میسن) مذہب کے تمام اونچی ڈگری کے ممبروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس مذہب کو اس خالص شکل میں لوسیفر یعنی شیطان کے نظرئیے کو مدنظر رکھتے ہوئے برقرار رکھا جائے ۔
’اگر لوسیفر خدا نہ ہوتا تو کیا ایڈونے ، خدا ہے؟ (یعنی خیر کا خالق ، مراد اللہ رب العالمین ہیں) جس کا کام ہی انسا ن سے نفرت ، سفاکیت اور سائنس سے دور رہنے کی تلقین ہے۔
’ہاں لوسیفر ہی خدا ہے اور بد قسمتی سے ایڈونے بھی خدا ہے۔ ابدی قانون کے تحت ۔ کیونکہ روشنی کا تصور تاریکی کے بغیر نا ممکن ہے ، جیسے خوبصورتی کا بدصورتی کے بغیر اور سفید کا سیاہ کے بغیر ۔ اسی طرح ہمیشہ کے لئے دو خدا ہی زندہ رہ سکتے ہیں (معاذاللہ!) اندھیرا ہی روشنی کو پھیلاتا ہے۔ ایک موت کے لئے بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے اور کسی گاڑی میں بریک کا ہونا ضروری ہوتا ہے(معاذاللہ!) ’شیطانیت کا نظریہ محض ایک افواہ ہے اور سچا خالص مذہب لوسیفر (ابلیس) کا مذہب ہے جو کہ ایڈونے کے برابر ہے (معاذاللہ!) لیکن لوسیفر جو کہ روشنی کا خدا اور اچھائی کا خدا ہے وہ انسانیت کے لئے محنت کر رہا ہیایڈونے کے خلاف جو کہ تاریکیوں اور برائی کا خدا ہے۔ (معاذاللہ!)
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ الومیناتی گروہ کے کیا نظریات ہیں اور وہ کس کو پوجتے ہیں۔
فری میسنری اور الومیناتی ایک ہی ہیں۔ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔ گویا یہودیت کی تمام شاخیں واضح طور پر شیطان کا پیروکار بن کر شیطان کے سب سے بڑے آلہ کار دجال کے لئے کام کر رہی ہے۔
امریکہ کو الومیناتی کیسے کنٹرول کر رہی ہے؟ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کا نام کونسل آف فارن ریلیشنز ہے جس کا مخفف سی ایف آر ہے ۔بظاہر یہ
ایک امریکی تھنک ٹینک ہے لیکن در حقیقت یہ امریکا میں ایک چھپی ہوئی حکومت ہے ایسی حکومت جو دجال کی راہ ہموار کرنے کے لئے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ براعظم کو استعمال کر رہی ہے ۔ اس کے قیام میں عالمی یہودی بینکروں اور الومیناتی صیہونیوں کا ہاتھ تھا جن میں جیکب شف ، پال واربرگ، جان ڈی راک فیلر اور جے پی مورگنجیسے بین الا قوامی بینکر تھے۔یہ وہی لوگ جنہوں نے فیڈرل ریزو سسٹم کے تحت امریکا کو اپنا غلام بنا لیا ۔ یہ تھنک ٹینک اور ایسے کئی تھنک ٹینک امریکی صدور کو بین الاقوامی پالیسیاں مرتب کرکے دیتے ہیں جن پر ہر صورت میں امریکی صدر کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ان تھنک ٹینکس میں انتہائی زہین اور کٹر یہودی شامل ہوتے ہیں ، یہی لوگ اپنی مرضی پر چلنے والے شخص کو منتخب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کی انتخابی مہم چلاتے ہیں۔اس لئے عام طور پر امریکی صدر کو بے اختیار سمجھا جاتا ہے جس کی اصل لگام یہودی تھنک ٹینکس کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ امریکی عوام بھلے ہی لاکھ احتجاج کرتے رہیں امریکی افواج کو دنیا کے اس خطے میں جنگ کے لئے بھجوایا جاتا ہے جہاں صدر امریکہ کی مرضی ہوتی ہے اور صدر امریکہ کی وہی مرضی ہوتی جو جو الومیناتی تنظیم سے تعلق رکھنے والے یہودی تھنک ٹینکس کی ہوتی ہے۔ ایک طرف یہودی اپنی چالبازیوں سے دنیا کی سب سے طاقتور اور جدیدترین فوج والی امریکی حکومت پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں دوسری طرف ورلڈبینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے ذریعے دنیا کے ممالک کو مقروض کرکے ان ممالک کو اپنا غلام بنا چکے ہیں۔ آج بھی پاکستان جیسے ملک میں ٹیکس بھی انہی عالمی اداروں کی مرضی پر لگائے جاتے ہیں اور ان کی پالیسیاں انہی مالیاتی اداروں کے حکم پر مرتب کی جاتی ہیں۔ ان کا تیسرا بڑا میدان میڈیا ہے جس پر میں کئی بار تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں۔
اہل مغرب کو لادینیت کی طرف دھکیل کر، ان کی معاشرت کو تباہ کرنے کے بعد اور ان پر غلبہ پانے کے بعد۔۔۔۔۔۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کو عیاشی کی راہ پر لگا کر ان کو بزدل بنا کر اور ان کی مہار امریکہ بہادر کے ہاتھ میں دینے کے بعد۔۔۔۔۔۔مشرق وسطیٰ کو بارود کا ڈھیر بنا کر ، شیعہ سنی فساد کی آگ لگا کر اور وہاں داعش جیسی اسلام دشمن تنظیموں کو جنم دینے کے بعد۔۔۔۔۔یودیوں کی پوری توجہ پاکستان پر ہے۔۔۔وہ پاکستان جس کے بارے احادیث میں اشارے پڑھ چکے ہیں کہ یہی خطہ اسلام کا اصلی قلعہ ثابت ہوگا، وہ پاکستان جسےبن گوریان نے یہود کا دنیا میں سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا اور وہی پاکستان جہاں پوری کوشش اور این جی اوز ۔ لبرل صحافیوں اور بکاؤ میڈیا کی کوششوں کے باوجود لادینیت فروغ نہیں پا سکی۔۔ اس پاکستان کو یہ مختلف حربوں سے کمزور کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ کتنے ہی فتنے یہاں آئے دن پیدا کئے جاتے رھتے ہیں کتنی ہی بار یہاں فرقہ ورانہ آگ بھڑکانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ابھی تک وہ ناکام ہیں۔ کیونکہ ۔۔۔۔۔ میرے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ملک کی طرف رخ کرکے ہمیشہ دعا کی تھی۔ آپؐ کو ہمیشہ ادھر سے ٹھنڈی ہوا آتی تھی۔اس لئے یہاں اسلام پہلے سے بھی زیادہ توانا ہے۔ ہماری تمام تر بداعمالیوں کے باوجود اللہ کو اپنے محبوبؐ کی محبوب سرزمین سے محبت ہے۔ اگلے تین سال کے تک اس ملک میں ایک فتنے کو اہل یہود بھیجنے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔ اس عورت کو دن رات تیار کیا جا رہا ہے پہلے اس کے لئے دنیا بھر کی ہمدردیاں اکٹھی کی گئیں۔پھر انعامات میڈلز کے ذریعے مقبول عام بنایا گیا۔پاکستانی میڈیا کے ذریعے اسے ہر لمحہ پروموٹ کیا گیا ۔ اسے پاکستانیوں کو نجات دہندہ بنا کر یہاں بھجا جائے گا۔وہ یہاں یہودیوں کے اس مشن کے لئے کام کرے گی جس میں آج تک یہودی ناکام ہیں اور ا ن شاءاللہ ہمیشہ ناکام رہیں گے۔وہ مشن یہاں سے کے لوگوں کو ان کے دین سے دور کرنے کا مشن ہوگا۔ وہ بظاہر بہت نیک و کار پرہیزگار اور انسانیت سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوگی اس کے آنے سے ملک میں خوشحالی کی لہر پیدا کر دی جائے گی ۔لیکن اس کا مقصد ایک ہی ہوگا۔۔۔۔اسلام کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا۔۔ تاکہ دجالیت کی راہ ہموار کی جاسکے۔۔۔اللہ پاک ہماری قوم کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور ایمان پر ہمیشہ قائم رکھے آمین۔

Friday, 20 November 2015

مسلمان یا دھشت گرد؟

یہ عجیب صورتحال ہے۔ مسلمان اگر غلیل سے بھی اپنی سرزمین، اپنی عزت ، اپنی جان اور اپنے دین کا دفاع کرے تو دھشت گرد ، اس "دھشت گردی" پر اس کا قتل کرنا جائز ، اس قاتل حق پر اور ٹھیک سمجھا جاتا ہے۔ اس بے گناہ کی حمایت کرنے والا ملک دھشت گردوں کا حامی اور اس بے گناہ کے خلاف ساتھ دینے والا امن پرست سمجھا جاتا ہے۔۔۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں قتل و غارت گری ھوجائے تو دنیا بھر کے مسلمان اور ان کے ممالک کی نیندیں اڑ جاتی ھیں اور بغیر مانگے صفائیاں دینے لگتے ھیں ، کسی جگہ مسلمان ھزاروں کی تعداد میں جلا دئیے جائیں خودکش حملے میں قتل کر دئیے جائیں سینکڑوں بچے دھشت گردی میں مار دئیے جائیں مسلمان سکھ کا سانس لیتے ھیں کہ شکر ھے ھم بچ گئے ھم پر دھشت گردی کا الزام نہیں لگے گا۔۔۔۔۔ نائن الیون ھوا تو اسلام اور مسلمان کی کم بختی آ گئی گالیاں الزام تراشیاں نفرت اور صلیبی جنگ کا اعلان۔۔۔۔۔۔ پیرس فرانس ھوا تو مساجد اور مسلمانوں کی شامت، پوپ کی جانب سے تیسری عالمی جنگ کا طبل ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ نائن الیون کے جہاز بھی امریکہ کے اپنے، بندے بھی انہیں کے ملک میں لے کر اڑے، فیلئیر کس کا تھا؟ ان کی اپنی سیکیورٹی ایجنسیز کا۔۔۔۔ پیرس ھوا تو اتنے زیادہ مسلح افراد کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھ میں مٹی جھونکنا کس کی ناکامی تھی؟؟؟۔
ھمارے معصوم بچے سکول میں شہید ھوتے ھیں تو ھم نے کب اسرائیل یا انڈیا کے خلاف جنگ کا اعلان کیا؟؟؟ حالانکہ سب کو پتہ ھے کہ پاکستان کے اندر ھونے والے دھشت گردی کے تمام واقعات کا کھرا صرف دو تین گھروں تک جاتا ھے۔۔۔
اور کبھی غور کرنا تو تمہارے نائن الیون اور پیرس کا کھرا بھی انہی گھروں تک جائے گا استعمال ھونے والا چاھے کوئی بھی ھو۔۔۔
اگر تم سوچتے ھو یہ کسی داعش یا القاعدہ کا کارنامہ ھے تو ضرور ان کو پکڑو مگر اس پکڑ دھکڑ سے پہلے یہ دیکھو کہ ان داعش وغیرہ جیسے سانپوں کو دودھ کہیں تماری ھی گائیوں بھینسوں کا تو نہیں پلایا جاتا رھا؟؟؟
پھر بھی اگر پانچ وقت کا نمازی اور داڑھی والا شرع کا پابند معصوم مسلمان تم کو دشمن لگتا ھے اور اس کے خلاف جنگ کرنے سے ھی تم کو سکون ملنا ھے تو پھر ایک ھی بارھم سب کو مار کیوں نہیں دیتے؟ بے فکر رھو یہاں کوئی صلاح الدین ایوبی تمہارا ھاتھ روکنے ولا نہیں ھے ۔۔ کوئی مسلمان حکمران تمہاری انٹرنیشنل بدمعاشیوں پر تم سے بات کرنے والا نہیں ھے یہاں سب کے سب تمہارے تلوے چاٹنے والے ھیں۔۔۔

مسیح۔ مسایا۔ الدجال المسیح

بخت نصر کے حملے کے بعد یہودیوں کی حالت بہت خراب ھوچکی تھی، ان کا ھیکل مکمل تباہ ھوگیا تھا لاکھوں یہودی قتل کر دئیے گئے تھے اور لاکھوں ہی غلام بنا کر بخت نصر ساتھ لے گیا تھا۔ وہ بری طرح منتشر اور بدحالی کا شکار تھے۔
یہودیوں کی الہامی کتاب توریت کےکئی ابواب میں پشین گوئی کی گئی تھی کہ جب یہودیوں کےحالات بہت دگرگوں ھونگے ان کو کہیں امان نہ ھوگی تو ان کی طرف ایک مسیحا(یہودی مسایا کہتے ہیں)بھیجا جائے گا جو ان کو تمام دکھوں سے نجات دلائے گا ، ان کے لئے بہت مبارک ثابت ھوگا۔ اگر وہ اس کی اطاعت اور بتائے ھوئے راستے پر چلیں گے تو ایک بار پھر دنیا میں ان کو پہلے جیسی سربلندی نصیب ہوگی اس پشین گوئی کو لے کر یہودی انتہائی شدت سے اپنے مسیحا اور نجات دہندہ کا انتظار کرنے لگے۔ ۔وہ مسیحا یا مسایا حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے۔
جب آپ ؑ دنیا میں تشریف لائے تو یہودیوں نے حضرت بی بی مریم مقدسہ مطہرہ پر بدچلنی کے الزامات لگانے شروع کر دئیے ۔ اپنی فطرت کے مطابق ان کی تذلیل شروع کر دی جس پر نومولود بچے عیسیٰ ؑ نے اپنی والدہ کی پاک دامنی کی گواہی دی۔ اس کے باوجود بھی وہ ان کو معاف کرنے پر تیار نہ تھے۔ گو کہ ان کے حالات یہ تھے کہ رومن سلطنت ان پر مسلط تھی لیکن پھر بھی وہ توبہ تائب ہونے پر تیار نہیں تھے اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی باکردار والدہ کی کردارکشی سے باز نہیں آتے تھے۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کی اصلاح و تربیت اور تبلیغ کا آغاز کیا۔ ان کو گناہوں سے بچنے اور ایک اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی تو وہ آپ ؑ کے بدترین دشمن ہوگئے۔ یہودیوں کے کاہنوں ، فقیہوں اور فریسیوں نے آپ ؑ پر کفر شرک اور مرتد ہونے کا فتویٰ لگا کر آپ ؑ کو واجب القتل قرار دے دیا۔ آپؑ کو انبیا ء رسل میں سب سے زیادہ معجزے عطا فرمائے گئے تھے تاکہ آپ ؑ کی امت کسی طرح آپ ؑ پر ایمان لے آئے لیکن ان معجزات کا بھی ان پر الٹا اثر ہوا ان کو جادوگر قرار دے دیا اور ان کو سزائے موت دلانے کے لئے رومی حاکم پینطس پلاطس سے درخواست کی۔ متی کی انجیل کے مطابق رومی حاکم ایسا نہیں چاھتا تھا لیکن یہودیوں کے پرزور اصرار مجبورا" اس نے آپ ؑ کو مصلوب کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ یہاں پر آپ دوستوں کی خصوصی توجہ چاھتا ھوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیب کے بارے پانچ مختلف عقائد ہیں
۔ 1۔ یہودی کہتے ہیں انہوں نے اپنی قوم کے ایک جھوٹے (نعوذ باللہ) مدعی نبوت یا جھوٹے مسیحا کو کو صلیب کی سزا دے کر مار ڈالا۔ اور وہ ابھی تک اپنے اس مسیحا کے انتظار میں ہیں جو دنیا میں آکر ان کو پوری دنیا کی بادشاہت دے گا
۔ 2۔ عیسائی کہتے ہیں آپ ؑ کو صلیب دی گئی ، صلیب پر آپ ؑ کی موت واقع ہوئی ۔ اس واقعہ کے تیسرے روز آپ ؑ دوبارہ زندہ ہوئے اپنے حواریوں سے آ ملے چالیس دن تک ان کے ساتھ رہے اور پھر زندہ آسمان پر چلے گئے۔ اب وہ دوبارہ آخری زمانے میں دنیا میں واپس تشریف لائیں گے عیسائیوں کو غلبہ دلائیں گے ان کو گناہوں سے پاک کرکے ان کی نجات کا وسیلہ بنیں گے۔ عیسائی بھی شدت سے اپنے مسیحاکے انتظار میں ہیں
۔ 3۔ کذاب غلام احمد قادیانی نے اپنی رعایت اور گنجائش نکالنے کے لئے ایک نئی کہانی گھڑی۔ اس نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دی گئی لیکن آپ ؑ کی موت واقع ہونے سےپہلے ان کو صلیب سے اتار دیا گیا ان کے شاگردوں نے ان کی مرہم پٹی کی اور کچھ دن بعد آپؑ خاموشی سے اکیلے ہی وہاں سے چلے گئے اور کشمیر میں آگئے یہاں انہوں نے اپنی طبعی عمر گذاری اور پھر دنیا سے رخصت ہوگئے ایک پرانی قبر دکھا کر کہا اس میں حضرت عیسیٰؑ دفن ہیں۔ (عجیب و غریب اور مضحکہ خیز بات )۔ ان کے دوبارہ آنے کی گنجائش نہیں ان کی جگہ مسیح موعود(غلام قادیانی کذاب) آ گیا ہے
۔4۔ قرآن پاک میں بیان فرمایا گیا نہ آپ کو مصلوب کیا گیا اور نہ ہی آپؑ کی موت واقعہ ہوئی بلکہ آپؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا جبکہ ان کی جگہ ان کی شبیہ بنا دی گئی۔ آپؑ دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور اسلام کا بول بالا کریں گے۔اس سے آگے قرآن پاک خاموش ہے۔ہم صرف قران حکیم کے حقائق پر یقین رکھتے ہیں اور قران میں ہی ہر حوالے سے سچائی ہے۔۔
5۔ قرآن پاک کی تصدیق بذریعہ انجیل۔۔آپ دوستوں کے لئے ایک انکشاف۔ 1908 میں پوپ کی لائبریری سے انجیل برناباس کا ایک قدیم نسخہ ملا جس کا اطالوی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اردو میں اس انجیل کا ترجمہ مولانا حلیم انصاری نے کیا اور کراچی کے پبلشنگ کے ادارے "ادارہ اسلامیات " نے شائع کیا۔عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ برناباس حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک تھے ان کی مرتب کی ہوئی انجیل کو انجیلِ برناباس کہا جاتا ہے۔یونانی میں اسے اینجلک برنابے کہا جاتا ہے۔ اس میں حضرت عیسیٰ ؑ کے صلیب والے واقعے کو انتہائی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک آدمی جس کا نام جیوڈاس ایسکیریاٹ تھا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں شامل ہوا۔ اس کا تعلق یہودیوں کی ایک زیرزمین تنظیم سے تھا جس کا سربراہ باراباس نامی شخص تھا۔ اس تنظیم کا مشن رومنوں کے خلاف جدوجہد کرکے ان سے آزادی حاصل کرنا تھا۔جیوڈاس نے جب حضرت عیسیٰ ؑ کے معجزات کا مشاہدہ کیا تو وہ آپ سے درخواست کرنے لگا کہ آپ ؑ رومنوں کے حق میں بددعا کیجئیے تاکہ کچھ ایسا ہو کہ ان کا یہودیوں پر سے تسلط ختم ہوجائے۔ لیکن آپؑ اس کی منافقت سے آگاہ تھے اس لئے آپ ؑ اس کی اس درخواست کو نظرانداز کر دیا کرتے۔ جب آپؑ کے خلاف کفر و ارتداد کے فتوے لگنے کی وجہ سے گرفتاری کا حکم جاری کیا گیا اور آپ ؑ گرفتاری سے بچنے کے لئے روپوش ہوگئےتو جیوڈاس نے آپؑ کو گرفتار کرانے کا فیصلہ کیا۔ ایک شام اس نے رومنوں کے ساتھ مل کر آپ ؑ کی گرفتاری کی سازش تیار کی۔اس شام حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک باغ میں اپنے حواریوں کے ہمراہ پناہ لئے ہوئے تھے۔ جیوڈاس نے تیس سپاہیوں کے ایک دستے کو ساتھ لیا اور اس باغ کے اندر ان کو چھپنے کا کہا۔ رومن سپاہی کیونکہ آپ ؑ کو شکل سے نہیں پہچانتے تھے چنانچہ منصوبہ یہ بنایا گیا کہ جب حضرت عیسیٰ ؑ باغ میں بنے ہوئے ایک کمرے سے جہاں وہ چھپے ہوئے تھے باہر تشریف لائیں گے تو جیوڈاس بلند آواز میں میرے استاد محترم کہے گا جس پر سپاہیوں کو آپ ؑ کی شناخت ہوجائے گی اور وہ گرفتار کر لیں گے۔ اس کے بعد جیوڈاس باغ کے اندر چلا گیا اور سب حواریوں کے ساتھ مل کر حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ آخری کھانا جسے عیسائی لاسٹ سَپر کہتے ہیں کھایا۔ کھانے کے بعد حضرت عیسی ٰ ؑ نے اپنے سب حواریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا " آج تم میں سے ایک میرے ساتھ غداری کرے گا۔ سب حواری کمرے سے باہر چلے گئے جبکہ جیوڈاس اکیلا آپ ؑ کے پاس رہ گیا۔ اس وقت اللہ کے حکم سے آسمان سے فرشتے اترے انہوں نے چھت کھولی ، کمرے میں داخل ہوئے اللہ کے حکم سے اسی وقت جیوڈاس کی شکل حضرت عیسیٰؑ سے مشابہ ہوگئی۔ فرشتوں نے آپؑ کو ساتھ لیا اور اسی طرح واپس آسمان پر چلے گئے۔ جیوڈاس کمرے سے باہر آیا تو آپؑ کے شاگرد اس کو حضرت عیسیٰؑ سمجھ کر استاد محترم استاد محترم کہتے ہوئے احتراما" اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس پر درختوں کے پیچھے چھپے ہوئے رومن سپاہی آگے بڑھے اور آپ ؑ کے ھمشکل جیوڈاس کو آپؑ کے دھوکے میں گرفتار کرلیا۔ اور اس طرح جیوڈاس کو اللہ کے معصوم نبی کے ساتھ دھوکہ دینے کی سزا بھی مل گئی۔ عیسایوں کا ایک فرقہ شہادت یاہوا (Jahova's witness)
اس عقیدے پر یقین رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کو صلیب نہیں دی گئی تھی۔ آسمان پر اٹھا لئیے گئے تھے۔ جو آخری زمانے میں دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔
ان عقائد کا ذکر کرنے کا مقصد اس مسیحا کی آمد کا پس منظر بیان کرنا مقصود ہے جس کے انتظار کرنے والوں میں تین اقوام ، عیسائی ، مسلمان اور یہودی ہیں۔ اصل مسیحا حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد سے پہلے مسیح الدجال کا ظہور ہوگا جسے دیکھتے ہی یہودی اسے اپنا مسیحا مان لیں گے۔ جبکہ مسلمان مومنین اس کے ماتھے پر لکھے ہوئے لفظ ک ف ر سے اس کی شناخت کریں گے۔ اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ اس کے کمالات اور اس کے کام ایسے ہونگے کہ اکثریت میں انسان دھوکہ کھا کر اسے سچا مسیحا سمجھ لیں گے جبکہ یہودی اس کے خصوصی لشکر میں شامل ھونگے۔ اس تحریر میں مسیحا صادق یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پس منظر اور آپ کی دوبارہ آمد سے متعلق عقائد کا ذکر ہے۔ جو مسیح الدجال کا مقابلہ کریں گے۔اسے انجام سے ھمکنار کرکے دنیا میں سچائی کا بول بالا کرین گے۔ یہاں ایک چھوٹی سی بات یہ کہ امام مہدی صرف ایک مجدد ہونگے جو اسلام سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں دین کی نئی روح پھونک دیں گے۔

Wednesday, 18 November 2015

معمولی بات


قافلہ ابھی شہر سے تھوڑا پیچھے تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت جو کہ کھجوروں اور اناج پر مشتمل تھا بھیگنے لگا . بارش سے محفوظ جگہ پر پہنچتے پہنچتے آدھا مال بھیگ چکا تھا. منڈی میں پہنچ کر تاجروں نے مال اتارنا شروع کیا ان تاجروں میں ایک بہت معصوم چہرے والا انتہائی خوش شکل نوجوان تاجر بھی موجود تھا. اس نوجوان تاجر نے جب اپنا مال اتارا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا. خشک کھجوریں اور خشک اناج ایک طرف رکھ دیا اور بھیگی کھجوریں اور اناج علیحدہ کر کے رکھ دیا. جب خرید و فروخت شروع ہوئی تو نوجوان تاجر کے پاس جو خریدار آتا وہ اسے بھیگے مال کا بھاؤ کم بتاتے جب کہ خشک مال کا بھاؤ پورا بتاتے گاھک پوچھتا کہ ایک جیسے مال کا الگ الگ بھاؤ کیوں تو وہ بتاتے کہ مال بھیگنے سے اس کا وزن زیادہ ہوگیا ہے خشک ہونے کے بعد وزن کم ہوجائے گا یہ بددیانتی ہوتی . لوگوں کیلئے یہ نئی بات تھی تھوڑی ہی دیر میں پوری منڈی میں ان کی دیانتداری کا چرچا ہوگیا. لوگ جوک در جوک معصوم صورت والے تاجر کے گرد جمع ہونے لگے. اتنی چھوٹی سی بددیانتی ان کے لئے معمولی بات تھی لیکن جنہوں نے تاجدار انبیا علیہ السلام بننا تھا ان کے لئے یہ بات معمولی کیسے ہوسکتی تھی.
میں اپنے اردگرد لوٹ مار اور نفسا نفسی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا ہم سب اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جو اتنی معمولی سی بات کو بھی بددیانتی سمجھتے تھے . آج ہماری بدیانتی کا عالم یہ ہے کے اربوں روپے کا غبن کرنے والا نہ صرف امانتدار ہے بلکے اسے عوامی مینڈیٹ بھی حاصل ہے۔  کس منہ سے قیامت کے دن ان کے حضور پیش ہونگے کیا کبھی سوچا ہم نے ؟

Friday, 13 November 2015

ھولوکاسٹ اور توہینِ رسالتؐ

امریکہ ، کینیڈا اور یورپ کے تقریبا" 36 ممالک جہاں آزادی ء اظہار رائے اس قدر بے مہار ہے کہ اس آزادی ء بے مہار کے نام پر کسی بھی شخصیت ، کسی بھی واقعہ یا کسی بھی موضوع پر آپ کچھ بھی بول سکتے ہیں لکھ سکتے تحقیق کرسکتے ہیں ، کسی بھی مقدس و محترم ھستی کا مذاق اڑا سکتے ہیں گستاخانہ کارٹون یا خاکے بنا سکتے ھیں، وہاں " ھولوکاسٹ" پر ایک بھی لفظ نہ بول سکتے ھیں نہ لکھ سکتے نہ اس پر تحقیق کرسکتے ھیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ کو ان ممالک کے " ھولوکاسٹ " کے سخت قوانین کے تحت سزائے قید اور جرمانہ ھوسکتا ھے، حتی کہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اپنی حکومت کو اختیار دے رکھا ھے کہ دنیا میں کہیں بھی،کسی بھی جگہ کوئی شخص اگر 60 لاکھ کی تعداد کو کم بتانے کی کوشش کرے،اس پر مقدمہ چلا سکتی ہے اور اس ملک سے اسے نفرت پھیلانے کے جرم میں Hate Criminal کے طور پر مانگ سکتی ہے، گرفتار کرسکتی ہے،اور سزا بھی دے سکتی ہے۔ لاتعداد یورپین صحافی، مصنف اور کالم نگار ہولوکاسٹ میں یہودیوں کی جانب سے بیان کردہ تعداد کو صرف غلط کہنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کئیے جاچکے ھیں۔
برطانیہ کی لبرل پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وارڈ نے اپنے بلاگ میں صرف یہ لکھ دیا تھا کہ ’’میں ہولوکاسٹ کے دور میں یہودیوں کے لیے پیش آئے" ناقابل یقین "واقعات پڑھ کر غم زدہ ہوجاتا ہوں، لیکن یہودی جنھوں نے یہ مصائب و آلام برداشت کیے ہیں، وہ کیونکر فلسطینیوں کے خلاف مظالم ڈھا رہے ہیں۔‘‘
اس بلاگ کے بعد ڈیوڈ وارڈ پر اس قدر دباؤ بڑھا کہ اسے مجبوراً معافی مانگنا پڑی ۔
ایک طرف اکیلے اسرائیل کی بدمعاشی کا یہ حال ھے اور دوسری جانب 58 مسلمان ممالک کی بے غیرتی کا یہ عالم ھے کہ اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر کوئی قانون نہیں بناسکتے۔ فلسطین میں جاری ھولوکاسٹ پر احتجاج نہیں کرسکتے۔

تابوت سکینہ۔ (Ark of the Covenant) آرک آف کووینینٹ


ہالی ووڈ کی فلموں کا ایک انتہائی مشہور اور کامیاب فلم ڈائریکٹر ، پروڈیوسر اور سکرین رائٹر سٹیون سپل برگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کٹر یہودی ہے اس کی فلموں کے موضوعات اکثر یہودیت کے حوالے سے ہوتے ہیں۔ سنہ ء 1981 میں اس نے ایک فلم ریڈرزآف دی لوسٹ آرک کے نام سے بنائی۔ یہ فلم جنگ عظیم کے پس منظر میں بنائی گئی ۔ اس فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ جرمن نازی تابوت سکینہ کی تلاش میں مصر کے اثار قدیمہ کی کھدائی کرتے ہیں تاکہ اس تابوت کی برکت سے جنگ میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ دوسری جانب امریکی خفیہ ادارے کے کچھ افراد فلم کے ہیرو آرکیالوجسٹ ڈاکٹر جونز کو جرمنوں کے اس منصوبے کے بارے بتاتے ہیں اور اسے معاوضے پر اس بات کے لئے تیار کرتے ہیں کہ وہ جرمنوں کے اس منصوبے کو ناکام کرے۔ قصہ مختصر ڈاکٹر جونز مصر روانہ ہوجاتا ہے اور بڑی مشکلات سے زمین کے نیچے دفن تابوت سکینہ تک جرمنوں سے پہلے پہنچ جاتا ہے لیکن عین اسی وقت تابوت سمیت جرمنوں کے ھتھے چڑھ جاتا ہے۔ جرمن افسران تابوت کو قبضے میں لے لیتے ہیں مگر اسے اپنی حکومت کے حوالے کرنے سے پہلے اس کی اصلیت جانچنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ایک خفیہ جگہ پر اس صندوق کو کھولا جاتا ہے، صندوق کے کھلنے پر اس خفیہ غار میں گویا قیامت سی آ جاتی ہے ، تمام افسران فوجی اور عملے کے لوگ جو اسے دیکھ رہے ھوتے ہیں ان پر صندوق میں سے برآمد ھونے والی بلائیں حملہ کر دیتی ہیں اور آن کی آن میں غار میں موجود تمام لوگوں کے جسم پانی کی طرح پگھل جاتے ہیں۔جبکہ ڈاکٹر جونز جو کہ اس موقع پر اپنی آنکھیں سختی سے بند کر لیتا ہے وہ زندہ بچ جاتا ہے۔ وہ صندوق کو لے جا کر امریکی حکومت کے حوالے کر دیتا ہے جو اپنی تحویل میں لیکر اسے انتہائی محفوظ جگہ پر چھپا لیتی ہے۔
یہ ایک مثال ہے جس کا مقصد اس صندوق یعنی تابوت سکینہ کی یہودیوں کی نظر میں اہمیت اجاگر کرنا ہے۔
صرف یہی فلم نہیں۔ ہزاروں فلمیں ڈاکومنٹریز اس تابوت سکینہ پر بنائی جا چکی ہیں جن میں اس کی اہمیت اور اس کی تلاش کے حوالے سے کوششیں دکھائی گئی ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس صندوق تک آج تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکی۔ پوری دنیا میں یہودی آج بھی ماہرین آثار قدیمہ کا روپ دھارے ملکوں ملکوں کھدائی کرتے پھر رہے ہیں لیکن آج بھی اس میں ناکام ہیں۔
اس صندوق میں کیا ہے؟۔ یہ صندوق یہودیوں کے لئے زندگی موت کا مسلہ کیوں بنا ہوا ہے؟۔ یہودی اس صندوق کا کیا کرنا چاہتے ہیں؟۔
سب سے پہلے ہم قران پاک میں دیکھتے ہیں کہ اس صندوق کی کیا اہمیت تھی اور اس میں کیا تھا۔ہمارے لئے قران پاک سے بڑھ کر اور کوئی حوالہ نہیں۔
وَقَالَ لَهُمْ نِبِیُّهُمْ إِنَّ آیَةَ مُلْکِهِ أَن یَأْتِیَکُمُ التَّابُوتُ فِیهِ سَکِینَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِکَةُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَةً لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ۔
اور ان سے ان کے پیغمبر نے کہا: اس کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ وہ صندوق تمہارے پاس آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے سکون و اطمینان کا سامان ہے اور جس میں آل موسیٰ و ہارون کی چهوڑی ہوئی چیزیں ہیں جسے فرشتے اٹهائے ہوئے ہوں گے، اگر تم ایمان والے ہو تو یقینا اس میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے۔
اس آیت مبارکہ میں لفظ تابوت کا مطلب صندوق اور سکینہ کا مطلب ایسا سامان جس سے دل کو سکون اور راحت ملے۔ یعنی اس صندوق میں ایسا سامان تھا جس کی برکت سے دلوں کو مضبوطی اور تسکین ملتی تھی۔
تفاسیر کے مطابق یہ صندوق سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام پر جنت سے اتارا گیا تھا یہ " شمشاد" نامی لکڑی سے بنا ہوا تھا۔ اس مقدس و متبرک صندوق میں حضرت آدم علیہ السلام اپنا ضروری سامان رکھا کرتے تھے۔ یہ صندوق نسل در نسل چلتا ہوا حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا ۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل تھا ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اولاد اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام یہودا تھا جن کی نسل کو ھم یہودیوں کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ صندوق بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے پاس آ گیا۔ یہودیوں کے پہلے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے یہ صندوق ان کے زیراستعمال رہا۔ اس میں آپ علیہ السلام اپنا عصا مبارک اور آپ پر نازل ہونے والی تورات کی لوحیں رکھا کرتے تھے یعنی اس صندوق میں انبیا کے معجزات کی اشیا محفوظ ھوتی تھیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے دنیا سے رخصت ہونے پر ان کے لباس عصا مبارک ، عمامہ مبارک اور آسمان سے اتارا جانے والا من و سلویٰ بھی اس صندوق میں محفوظ کر دیا گیا اور یہ صندوق قوم کے سرداروں کی تحویل میں چلا گیا۔ یہ معجزات اللہ کی طرف سے ان انبیا پر اتارے گئے تھے چناچہ ان کی برکت سے اس صندوق کو خاص فضیلت حاصل تھی۔بنی اسرائیل کے لوگ اس صندوق کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی اس صندوق کی برکت سے ان کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے تھے کبھی کوئی آسمانی آفت آتی تو یہ اس صندوق کے سامنے بیٹھ کر دعا کرتے تو وہ آفت حیرت انگیز پر فورا" ٹل جاتی۔کبھی زلزلہ ، سیلاب خوفناک آندھی و طوفان آتا تو یہ تابوت سکینہ کے وسیلے سے دعا کرکے اس سے نجات پا لیا کرتے۔ اسی طرح جنگ و جدل کے دوران بڑے سے بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت صندوق فوج کے آگے لیکر چلتے جس کی برکت سے ان کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے اور دشمن کی افواج پر کم سے کم جانی نقصان کے بدلے غالب آ جاتے۔ خاص موقعوں اور تہواروں پر یہ صندوق کو عزت و احترام سے کندھوں پر اٹھا کر جلوس نکالا کرتے۔اس مقدس صندوق کی حفاظت کے لئے فوج کا ایک خصوصی محافظ دستہ تعینات ہوتا تھا۔
یہ قوم بہت عجیب و غریب عادات کی مالک تھی ایک طرف تو صندوق اور اس میں موجود اشیا کا احترام اس قدر کہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا دوسری طرف اللہ کے احکامات سے مکمل روگردانی کرنا ان کا معمول بن چکا تھا۔ یہ نہایت ضدی اڑیل مغرور اور سرکش لوگ تھے۔ حد سے زیادہ لالچی مال دولت سے محبت کرنے والے اور ظالم تھے اپنے انبیا اور علما کی روک ٹوک پر ان کو خوفناک اذیتیں دیا کرتے تھے۔ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھنے لگی تو اللہ نے ان کو عذاب دینے کے لئے ان پر قوم عمالقہ مقرر کر دی۔ اس قوم کے بادشاہ جالوت نے ان پر انتہائی زبردست حملہ کیا ، ان کی بستیاں اجاڑ دیں ، شہروں کو جلا کر راکھ کے ڈھیر بنا دیا ، بے شمار لوگوں کو قتل عام کرکے ہلاک کر دیا اور ان کا تابوت سکینہ چھین کر ساتھ لے گیا۔ مفسرین کے مطابق اس نے اس تابوت کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ تابوت کی اس بے حرمتی پر اللہ کی طرف سے قوم عمالقہ پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔جس شہر کے گندگی ڈھیر پر یہ صندوق پھینکا گیا تھا اس شہر میں ایک عجیب سی وبا پھوٹ پڑی جس کا کسی حکیم معالج کے پاس علاج نہیں تھا۔ لوگ بہت تیزی سے لقمہ ء اجل بننے لگے۔ لوگ پریشان ہوکر حاکم شہر کے پاس پہنچے اس نے کاہنوں کو جمع کیا اور ان سے اس عذاب کی وجہ معلوم کرنا چاہی۔ کاہنوں نے حساب لگا کر بتایا کہ اس عذاب کی وجہ تابوت سکینہ کی شدید بے حرمتی ہے۔ وہ لوگ اس صندوق کو بنی اسرائیل کو کسی صورت میں واپس نہیں کرنا چاہتے تھے چناچہ یہ صندوق ایک دوسرے شہر میں پہنچا دیا گیا۔ حیرت انگیز طور پر صندوق پہنچانے کے بعداس شہر میں بھی وہی خوفناک مرض پھوٹ پڑا اور ہزاروں کی تعداد میں روزانہ انسان مرنے لگے۔ کہا جاتا ہے اس صندوق کی وجہ اس قوم کے پانچ شہر مکمل طور پر تباہ ھوگئے مختلف آفات امراض نے اس قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس پر فیصلہ کیا گیا کہ یہ تابوت واپس بنی اسرائیل کو دے دیا جائے۔ صندوق کو ایک بیل گاڑی پر رکھا گیا اور اسے شہر سے نکال دیا گیا۔ خدا کی قدرت سے بیل اس صندوق کو لیکر بنی اسرائیل کے ملک کی طرف روانہ ھوگئے۔ دوسری جانب اس زمانے میں بنی اسرائیل میں حضرت شموئیل علیہ السلام معبوث کئیے گئے تھے ۔ حضرت شموئیل علیہ السلام طالوت کو جو کہ ایک نیک انسان تھے بنی اسرائیل کا بادشاہ بنانا چاھتے تھے جبکہ بنی اسرائیل حسب معمول سرکشی اختیار کئیے ہوئے تھے۔اپنے نبی کی کسی بات پر عمل کرنے کو تیار نہیں تھے۔ آخرکار قوم کے سرداروں نے جان چھڑانے کی خاطر حضرت شموئیل علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اللہ کے سچے نبی ہیں اور چاھتے ھیں کہ ان کا حکم مانا جائے تو وہ دعا کریں کہ ان کا قیمتی اور مقدس تابوت سکینہ ان کو واپس مل جائے اگر ان کی دعا قبول ھوگئی تو وہ ان کی ہر بات تسلیم کر لیں گے۔ اس پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے حکم ربی سے ان کے ساتھ وعدہ کر لیا کہ تابوت سکینہ اگلے روز صبح تک خودبخود ان کے پاس پہنچ جائے گا۔ اس پر سردار ان کا مذاق اڑانے لگے کیونکہ وہ قوم عمالقہ کی غضبناکی سے اچھی طرح واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کے قبضے سے اس تابوت کا واپس ملنا ناممکن تھا۔ اگلے روز بیل گاڑی پر لدا ہوا تابوت سکینہ ان تک پہنچ گیا جس پر حسب وعدہ انہوں نے اپنے نبی کا حکم مان کر طالوت کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ اوپر والی قران پاک کی آیت میں اسی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ تابوت سکینہ دوبارہ حاصل ہونے پر اس قوم کے حالات میں ایک بار پھر بہتری آنے لگی لیکن ان کے اعمال وہی رھے۔
پھر حضرت داؤد علیہ السلام کا دور آیا، آس وقت تک یہ قوم خانہ بدوشوں کی سی زندگی گذارتی تھی اور تابوت سکینہ بھی ایک خیمہ میں ہی رکھا جاتا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ان کے لئے ایک عبادت گاہ تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جسے ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کے مقام پر عظیم الشان عبادتگاہ کی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تابوت سکینہ کو خیمنے سے نکال کر اس عبادتگاہ میں رکھ دیا گیا۔ اس عبادت گاہ کے تابوت سکینہ والے حصے میں سوائے انبیا اور سب سے بڑے عالم کے کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد آپ کی انگوٹھی مبارک بھی اسی تابوت میں محفوظ کر دی گئی۔ جب حضرت زکریا علیہ السلام کا زمانہ آیا تو اس وقت تک یہ قوم اس قدر گمراہی میں ڈوب چکی تھی کہ اللہ کے پیغمبروں کی تذلیل و تحقیر ان کا معمول بن چکی تھی ان پہ ظلم و تشدد ان کے لئے عام سی بات تھی۔ جب حضرت زکریا علیہ السلا م کوزندہ آرے سے چیرا گیا ، اور بعد میں ان کے بیٹے حضرت یحیٰ علیہ السلام کو انتہائی بے رحمی سے قتل کیا گیا تو اللہ تعالی ان سے سخت ناراض ہوگیا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے 586 سال پہلے کی بات ہے کہ حضرت یحیٰ کے قتل کے تھوڑے ہی عرصہ بعد عراق کے بادشاہ بخت نصر نے اسرائیل پر بہت بڑا حملہ کیا ، اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، لاکھوں یہودی قتل کئیے اور لاکھوں کو غلام بنا لیا۔ بیت المقدس کو مکمل تباہ کر دیا اور اس میں رکھے تابوت سکینہ کو قبضے میں لے کر اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ وقت بنی اسرائیل پر تاریخ میں سب سے کڑا تھا۔ بخت نصر نے تابوت سکینہ کا کیا کیا، یہ آج تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا۔
تابوت سکینہ ہمیشہ کے لئے یہودیوں سے چھن گیا۔ساتھ ہی یہودی قوم۔۔۔۔ وہ قوم جو تاریخ کی سب سے بہترین قوم تھی۔ جسے اللہ کی لاڈلی قوم ہونے کا فخر حاصل تھا اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ملعون ہوگئی۔ دنیا میں رسوا ہوکر رہ گئی۔
آج یہودیوں کو دو ہزار سال بعد دوبارہ اسرائیل کی سرزمین پر قدم جمانے کا موقع ملا ہے تو بھی اس قوم کی وہی عادات و اطوار ہیں۔ وہی ظلم و جبر، دھونس دھاندلی، تکبر،خود کو ساری دنیا سے اعلیٰ و ارفع سمجھنے کا خناس، اللہ کی طرف سے لعنت زدہ ہوجانے کے باوجود بھی ابھی تک اللہ کی لاڈلی قوم ہونے کی خوش فہمی موجود ہے۔ وہی مال و دولت کا لالچ اور مال جمع کرنے کے وہی صدیوں پرانے شیطانی طریقے، ان کا کچھ بھی نہیں بدلا۔آج بھی اسی جگہ حضرت سلیمان علیہ السلام والی عبادت گاہ تعمیر کرنے کا جنون اور اسی طرح تابوت سکینہ کو دوبارہ حاصل کرکے ھیکل سلیمانی میں رکھنے کا بخارہے۔ یہ آج بھی مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار جو ٹائٹس کے حملے میں بچ گئی تھی ھیکل سلیمانی کی آخری نشانی سمجھ کر اس سے لپٹ لپٹ کر دھاڑیں مار کر روتے ہیں۔ اپنی عظمت کے دنوں کو یاد کرکے رونا ان کی عبادت بن چکی ہے لیکن ابھی تک ناسمجھ ہیں۔۔۔
ان کے جنون اور ماضی سے لپٹے رھنے کا یہ عالم ہے کہ پورے کرہ ارض کو کھود کر اس میں سے تابوت سکینہ تلاش کرتے پھر رھے ھیں۔ان کو اپنے مسایا (آخری مسیحا) کا بے صبری سے انتظار ہے جس کے جھنڈے تلے ایک بار پھر ان کو پوری دنیا پر غلبہ حاصل ہوجائے گا۔ اس ایک آنکھ والے مسایا (دجال اکبر) سے ان کو اس قدر محبت ہے کہ پوری دنیا میں اس کی ایک آنکھ کی نشانی کا پرچار کرتے پھر رھے ھیں۔اس کی آمد پر متحد ھونے کے لئے کئی خفیہ تنظیمیں بنا رکھی ہیں جو اسے خوش آمدید کہہ کر اسے خدا مان لیں گی۔
تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس پر انگریز عیسائیوں اور یہودیوں نے بڑی ریسرچ کیں ہیں۔ لیکن حتمی طور پر سارے ایک نقطے پر متفق نہیں ہوسکے۔ لیکن مجھے جو سب سے قرین قیاس تھیوری لگتی ہے وہ یہ کہ اس وقت یہ صندوق یا تابوت حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کہیں دفن ہے۔ جو فلسطین میں آج بھی گم ہے جس کو یہودی کافی عرصے سے ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور آئے دن وہاں بیت المقدس میں کھدائی کرتے رہتے ہیں۔
اس کے متعلق بہت سے نظریات ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ تابوت اب بھی حضر ت سلیمان علیہ السلام کے محل کے اندر ہی کہیں دفن ہے۔
کچھ کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا۔
ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے۔
کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے۔
جبکہ کچھ سکالرز کا ماننا ہے کہ یہ تابوت ایتھوپیا کے تاریخی گرجا گھر ایکسم میں پڑا ہواہے۔
ایک اور نظریہ ہے کہ یہ بحیرہ مردار کے قریب ایک غار کے اندر کہیں گم ہو چکا ہے۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے 1981 میں اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پہلے محل سے کھدائی کے دوران نکال کر کہیں نامعلوم جگہ پر منتقل کردیا ہے۔ جبکہ کھدائی کرنے والے یہودیوں کا کہنا تھا۔ کہ وہ اس صندوق کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ لیکن اسرائیلی گورنمنٹ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے پریشر میں آکر اس کی کھدائی پر پابندی لگا دی تھی۔ اسلئے انہیں یہ کام نامکمل ہی چھوڑنا پڑا۔
بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ اور حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تابوت کہاں ہے۔

Friday, 6 November 2015

مکھی مار دانشور

الیکٹرونک میڈیا نے جہاں بہت سے فتنے متعارف کرائے اور بے حیائی و فحاشی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہیں لاکھوں کی تعداد میں کُھمبرے ٹائپ کے دانشور بھی پیدا کر دئیے ہیں۔ جو رات بھر جاگ جاگ کر سیاسی ٹاک شوز دیکھنے کے بعد حیرت انگیز طور پر صبح بیدار ہوتے ہی ایک انٹیلیکچوئل کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں۔ میری بستی (فضل ٹاؤن) کے قریب سڑک پر کچھ دکانیں ہیں۔ کبھی وہاں سے کوئی سودا سلف خریدتے ہوئے یا پاس گزرتے ہوئے اکثر دیکھا کرتا ہوں دکانوں کے آگے دھرے ہوئے پھٹوں پر ایسے ہی کئی مکھی مار دانشور بیٹھے ہوئے "ٹاک شو" کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی میں کاشف عباسی کی جھلک دکھائی دیتی ہے کسی میں حامد میر کا عکس نظر آتا ہے غرضیکہ ہر اینکر پرسن کا جلوہ پوری آب و تاب سے دکھائی دیتا ہے۔ ان کے علاوہ ان میں سے کچھ رضا ربانی ، کچھ بابر غوری، کچھ خواجہ آصف اور کچھ ڈاکٹر شیریں مزاری بن کر اپنی اپنی پارٹیوں کا دفاع کرتے نٖظر آتے ہیں۔ اگر آپ دوست بھی اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اردگرد غور سے دیکھیں تو آپ کو بھی ایسے ہی دانشور گلی محلوں کی نکڑوں دکانوں کے آگے بیٹھے نظر آئیں گے جو بالکل کسی ٹاک شو کی تصویر بنے اپنے اپنے ھنر دکھا رہے ھونگے۔
میں اس صورتحال سے پریشان ہوں۔ یہ دانشور ان اینکر پرسنز کی مکمل کاپی کرتے ہوئے ان کے خیالات اور نظریات کا جانے انجانے میں پبلک میں پرچار کر رہے ہیں۔ لاکھوں روپے لے کر اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے پرائیویٹ چینلز کے ان اینکرز سے متاثر شدہ مکھی مار دانشور بالکل انہی کے انداز میں فوج اور ملک کے خلاف مایوسی اور نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں۔
عام پبلک کی بات کو چھوڑئیے۔ اب یہی حال ادھر فیس بک پر بھی ہو چکا ہے۔ یہاں آپ کو جا بہ جا ایسے ٹاک شوز نطر آئیں گے جن میں یہی کچھ دھرایا جا رہا ہوتا ہے یوں نظر آتا ہے جیسے دنیا جہان کے حامد میر اور حسن نثار یا اسی برانڈ کے دوسرے دانشور فیس بک پر جمع ہوچکے ہیں اور مفت میں آپ کو مستقبل کا خدا نخواستہ ٹوٹا پھوٹا پاکستان دکھانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے دنیا بھر کا علم ان کے اندر سمندر بن کر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ تہہ در تہہ چھپے "حقائق" کو اپنی بے مثال "دانشوری" کے ذریعے جان چکے ہیں اور زبردستی آپ کو بھی اپنے علم کے خزانوں سے مستفید کرنے کے لئے مجبور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ فیس بک کے ان مکھی مار دانشوروں کے پاس ٹی وی ٹاک شوز سے ادھار لیا ہوا معلومات کے خزانے کا انبار جب ان کے معدے کی برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو کسی گروپ یا کسی پیج پر جا کر یہ کسی آتش فشاں کی مانند پھٹ کر اپنے پیٹ درد کا علاج کرتے ہیں۔ اور میرے جیسے کم عقل پر اپنی دانشوری اور نالج کی دھاک بٹھانے لگتے ہیں۔
ایسے دانشوروں کے گھر والوں سے التماس کرتا ہوں کہ اگر آپ ان کے اس شوق سے پریشان ہیں یعنی دانشور صاحب کی ان غیر نصابی سرگرمیوں اور مصروفیت کی وجہ سے اگر گھر میں بھوک پاؤں پسار رہی ہے تو کیبل نیٹ ورک اور انٹر نیٹ کا کنکشن پہلی فرصت میں کاٹ دیں امید ہے کافی حد تک افاقہ ہو جائے گا اور وقتی عارضی دانشور صاحب دوبارہ اپنے کام دھندے پر لگ جائیں گے اور گھر سے بھوک کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔ کیونکہ
ایسے حامد میر، حسن نثار وغیرہ کیبل نیٹ ورک اور انٹر نیٹ کے ڈس کنیکٹ ہونے کی مار ہیں۔

اندھے ، گونگے ، بہرے لوگ

وہ بہت سی زبانوں کا ملک تھا. اس ملک کے لوگ زبانوں کو قتل کرنے کے جنون میں مبتلا تھے خالق نے ان میں سے نصف کی زبانیں چھین کر ان کو گونگا کر دیا اور نصف کی سماعتیں چھین کر ان کو بہرا کر دیا. اب بہرے سارا دن ایک دوسرے کو اپنی اپنی سناتے رہتے لیکن ایک دوسرے کی سمجھ نہ آنے کی وجہ سے پیچ و تاب کھاتے رہتے. دوسری جانب گونگے ،بہروں کی باتیں سن سن کر ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے لیکن کسی کے پلے اشاروں کی زبان نہ پڑتی . تب وہ اشاروں اور سماعتوں کو قتل کرنے لگے. اس پر خالق نے آدھے گونگوں اور آدھے بہروں کو سماعت اور زبانیں دے کر اندھا کر دیا. اب اس ملک میں شانتی ہے کیونکہ اندھے گونگوں کا فیصلہ کرتے ہیں گونگے بہروں کی وکالت کرتے ہیں اور بہرے گونگوں اور اندھوں کا مقدر لکھتے ہیں.

صرف ایک لفظ

ایک لفظ
صرف ایک لفظ لکھنا ہے۔
اس قوم کے لئے صرف ایک لفظ لکھنا ہے۔
کیونکہ اس میں، میں اور آپ بھی شامل ہیں اس قوم کا حصہ ہیں۔

اس لئے لحاظ رکھنا اگر مناسب سمجھتے ہیں تو بے شک کچھ بھی مت لکھیں۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ لکھوں چند الفاظ عرض کرتا ہوں، میں سوچتا ہوں اس قوم پر کیوں اتنے عذاب ہیں؟ بارشیں، سیلاب، یا آگ برساتی دھوپ اور گرمی، قتل و غارت گری، لوٹ مار، بھتہ خوریاں،دھشت گردی، بدترین حکمران، اور بہت بہت کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ دیر پہلے ٹی وی پر ایک پروگرام چل رہا تھا۔ جو دیکھا وہ اتنا مکروہ اور اتنا غلیظ تھا کہ متلی ہونے لگی اور قے آتے آتے رک گئی۔ شاید یہ متلی اس غلاظت کو دیکھ کر ہوئی جو سکرین پر دکھائی جا رہی تھی یا شاید خود کو اس قوم کا فرد سمجھ کر اپنے اندر کی اجتماعی غلاظت کا احساس ہونے کے بعد ہوئی۔ میں فیصلہ نہیں کر پایا۔
دکھایا جا رہا تھا کہ اس ملک کے ایک شہر گوجرانوالہ میں ایک ایسے مقام پر چھاپہ مارا گیا جہاں کتے بلیوں کو پکڑ کر مارا جاتا ہے ان کی کھالیں اتار کر ان کے گوشت چربی اور ھڈیوں کو پگھلا کر اس سے کیسے گھی نکالا جاتا ہے۔ اور اس گھی کو گھی بنانے والی فیکٹری والوں کے پاتھ سستے داموں فروخت کر دیا جاتا یا تکے کباب بنانے والے بڑے بڑے ھوٹلوں ریسٹورنٹس والوں کو بیچا جاتا ہے جس سے انتہائی لذیذ اور کرارے تکے کباب،سموسے پکوڑے کڑاہی گوشت وغیرہ بنا کر عوام کو کھلائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ رمضان میں افطاری کے لئے خصوصی طور پر تیار کی جانے والی پوریاں کچوریاں بھی تیار کی جاتی ہیں۔
اس کام کے لئے حرام جانوروں کے علاوہ مردہ گائے بھینسوں کی ھڈیوں گوشت اور چربی کو بھی کام میں لایا جاتا ہے۔ یہ غلیظ کام عرصہ سولہ سال سے کامیابی سے جاری ہے۔
جو لوگ پکڑے گئے یا جو اس گھی کو جانتے ہوئے استعمال کرتے ہیں یا جن کی فیکٹریوں میں گھی تیار کیا جاتا ہے وہ سب کے سب مسلمان ہیں۔ ان میں پکے نمازی بھی ہونگے۔ کئی نے حج بھی کئے ہونگے۔ کچھ کے ماتھے پر کثرت سے سجدوں کی وجہ سے نشان بھی پڑ گئے ہونگے۔ بہت سوں نے رمضان کے تمام روزے بھی رکھے ہونگے بے تحاشہ کمائی سے اچھے اچھے محلات کے مالک ہونے کی وجہ سے ان کا معاشرے میں بہت معزز اور اونچا مقام بھی ہو گا۔
میں آج کسی قسم کی لفاظی نہیں کرنا چاہتا۔شاید جو لکھا ہے وہ بھی میرے لئے بہت ہی مشکل تھا۔
ہم روئے زمین پر انتہائی بدترین قوم ہیں۔ ہم جیسا درندہ اور ظالم شاید بھیڑیا بھی نہیں ہوگا۔ تاریخ عالم میں جتنی امتیں تباہ و برباد ہوئیں ان سب کے اعمال ایک طرف اور ہمارے ایک طرف۔ ہم جیسا کوئی بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ ہمارے ساتھ قدرت کی طرف سے جو سلوک کیا جاتا ہے ہم بالکل اسی کے قابل ہیں۔
میں اپنے لئے اپنی قوم کے لئے ایک مختصر سا جملہ بولوں گا۔ " ہم بے مثال بدترین ہیں۔ "
آپ کیا کہتے ہیں؟؟؟؟

مرتدین پاکستان

پاکستان کی کل آبادی بیس کروڑ ہے۔ بیس کروڑ پاکستانیوں میں سے مسلمان 97 فیصد ھیں اور دیگر اقلیتیں تین  فیصد۔ یعنی مسلمانوں کی تعداد انیس کروڑ چالیس لاکھ ھے اور دیگر مذاھب جن مین عیسائی ، ھندو ، سکھ پارسی، قادیانی وغیرہ شامل ھیں، کی تعداد ساٹھ لاکھ ھے۔
"ان"
کی نظر میں ھم تمام پاکستانی مسلمان مرتد ھوچکے ھیں۔ اور ھمارے خلاف ان پر جہاد فرض ھوچکا ھے۔ھمیں خودکش حملوں میں قتل کرنا ان کی نظر میں عین جہاد اور ثواب کا کام ھے۔ صاف اور واضح الفاظ میں ساٹھ لاکھ اقلیتوں کو چھوڑ کر ھم سب انیس کروڑ چالیس لاکھ ان کےخیال میں واجب القتل ھیں۔ یہ جہاد صرف انیس کروڑ چالیس لاکھ مرتدین کے خلاف ھے۔ باقی سب اقلیتیں بے گناہ ھیں۔

ایک ویڈیو میں ، میں دیکھ رھا تھا جس میں ایک لیڈر ھم سب کو " مرتدین پاکستان" کے نام سے یاد فرما رھا تھا۔ اور خوشخبری دے رھا تھا کہ عنقریب پاکستان میں سے سب مرتدین کا صفایا ھو جائے گا۔ باقی اقلیتیں ان کی نظر میں کفار ھیں اور کفار کے خلاف جہاد فرض نہیں مرتدین کے خلاف جہاد فرض ھے۔

ھادیء برحق صادق عظیم آقا محمد مصطفےٌٰ نے آخری زمانے میں ایک گروہ کے بارے خبردار فرمایا تھا۔
 آپؐ نے فرمایا
"وہ"
1۔ بہت عمدہ قران پڑھنے والے ھونگے۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 624)
2۔ بہت عبات گذار ھونگے ان کی عبادتوں کو دیکھ کر تم اپنی عبادتوں کو حقیر جانو گے۔ (صحیح بخاری جلد اول صفحہ 509)
3۔قران کی طرف بلائیں گے لیکن قران کی کوئی شے ان میں نہیں پاؤ گے۔ (سنن ابی داؤد جلد دوم صفحہ 312)
4۔دین کی باتیں کریں گے لیکن ایمان سے خالی ھونگے۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 1024)
5۔کم عمر اور بے وقوف ھونگے۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 1024)
6۔کفار پر نازل ھونے والی آیات کو مسلمانوں پر چسپاں کریں گے۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 1024)
7۔مسلمانوں پر شرک کا الزام لگائیں گے اور انہیں قتل کریں گے۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 175)
8۔بت پرستوں کو چھوڑیں گے اور مسلمانون کو قتل کریں گے۔ (صحیح بخاری جلد اول صفحہ 472)
9۔ان کی آخری جماعت دجال کے ساتھ نکلے گی۔ سنن نسائی جلد دوم صفحہ 174)
10۔ کثرت سے سر منڈائیں گے۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 624)
11۔ آدھی پنڈلیوں تک شلواریں رکھیں گے۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 624)
12۔ اگر میں انہیں پاتا تو قوم عاد ثمود کی طرح قتل کر دیتا۔ صحیح بخیاری جلد اول صفحہ 472)
یہ بدترین مخلوق اور جہنم کے کتے ھونگے۔
ان کی باتیں سن کر اور ان کے اعمال دیکھ کر لگتا ھے کہ یہ گروہ وھی ھے۔

واپسی کا سفر


Tuesday, 27 October 2015

سٹون آف سکون

آج ایک نئی چیز آپ کو دکھاتا ھوں۔ اس چیز پر پہلے کسی نے نہیں لکھا اور نہ آپ کی اس جانب کسی نے توجہ دلائی ھے۔
 اس تصویر میں ایک جگہ ایک تخت پر ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کی جا رھی ہے ۔ دوسری تصویر میں اس خالی تخت کی تصویر ھے اس تصویر میں میں نے تیر کے نشان سے ایک پتھر کی نشاندھی کی ہے جو اس کرسی یا تخت کے بالکل عین نیچے ہے۔
 یہ سٹون آف سکون  ہے وہ مقدس پتھر جس پر بٹھا کر حضرت داؤد علیہ السلام کی تاج پوشی کی گئی تھی۔ اسے تخت داؤد کہا جاتا ھے۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ھیکل سلیمانی تعمیر کیا تو یہ پتھر دوسری مقدس اشیاء کے ساتھ ھیکل سلیمانی میں رکھا گیا۔ جب سنہ ء 70 میں رومیوں نے فلسطین پر حملہ کیا تو لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ ھیکل سلیمانی کو بھی گرا کر تباہ کر دیا ، ٹائٹس نے یہی پتھر بھی ساتھ لیا اور اسے روم میں لا کر رکھ دیا۔ روم کے بعد یہ پتھر آئرلینڈ لایا گیا، آئرلینڈ سے سکاٹ لینڈ لایا گیا ، آئرش اور سکاٹش بادشاہ اسی مقدس پتھر پر بیٹھ کر تاج پوشی کی رسم ادا کیا کرتے تھے۔ اسکاٹ لینڈ سے یہ پتھر انگلینڈ لایا گیا ، انگلینڈ میں بھی برطانوی بادشاہ اسی تخت داؤد پر تاج پوشی کی رسم ادا کیا کرتے ھیں۔ یہ پتھر اس وقت ویسٹ منسٹر ایبے، برطانوی پارلیمنٹ کے ساتھ چرچ میں موجود ہے۔
اس پتھر کی اگلی منزل کہاں ہے؟۔
یہودی اس تخت داؤد کو اس کی اپنی پرانی جگہ یعنی تیسری بار تعمیر کئے جانے والے ھیکل سلیمانی میں دوبارہ رکھنا چاھتے ھیں۔ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق اسی تخت داؤد پر ان کا مسیحا آ کر بیٹھے گا اور ساری دنیا پر حکومت کرے گا۔ وہ مسیحا جسے ھم مسلمان دجال کے نام سے جانتے ھیں۔ عیسائیوں کا عقیدہ ھے کہ اس تخت پر ان کے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ کر بیٹھیں گے ۔
یہ تو آپ کو بھی علم ھوگا کہ اس ھیکل کے تمام حصے یہودیوں نے تیار کر رکھے ھیں صرف ان کو نصب کرنا باقی ھے۔ یہ ھیکل عین اسی جگہ تعمیر کیا جائے گا جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجود ھے ، اس مقصد کے لئے گنبد صخریٰ اور مسجد اقصیٰ کو شہید کیا جائے گا۔ اور یہ بھی آپ نے سنا ھوگا کہ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو خفیہ طریقے سے مشینری استعمال کرکے کمزور کر دیا ھے۔
کیا یہ سب آسان ھوگا؟۔ ھرگز نہیں۔ جب مسجد اقصیٰ جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ھے گرائی جائے گی تو کمزور اور بکھرے ھونے کے باوجود مسلمان اٹھ کھڑے ھونگے۔ چاھے کوئی سنی ھو ، شیعہ ھو ، وھابی ھو دیوبندی ھو اپنے قبلہ اول کی شہادت کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اس معاملے میں آج بھی تمام مسلمان متحد ھیں۔ نتیجے میں آخری عالمی جنگ شروع ھوگی جس کے بارے نبی کریم ﷺ کی پشین گوئیاں موجود ھیں۔ وہ اتنی خوفناک جنگ ھوگی کہ حدیث پاک میں ھے کہ اس جنگ میں اتنی خونریزی ھوگی کہ زمین لاشوں سے اٹ جائے گی۔ ایک پرندہ زمین پر خالی جگہ کی تلاش میں اڑے گا لیکن اسے زمین پر اسے کوئی جگہ ایسی نہیں ملے گی جہاں انسانی لاشیں نہیں ھونگی۔ حتی کہ وہ تھک کر گرے گا تو جہاں گرے گا وھاں بھی لاشوں کا ڈھیر ھوگا۔
یہ جنگ ھر صورت ھو کر رھے گی اس آخری جنگ کا ذکر تمام مذاھب کی کتابوں میں ، ھرمجدون، آرماگیڈن حتی کہ ھندوؤں کی کتابوں میں مہا یدھ کے نام سے موجود ھے۔۔ یہودی اور عسائی اس جنگ کے لئے مکمل تیار ھیں ان کی ایک نیٹو فوج پوری تیاری کی حالت میں ھے جبکہ مسلمان ابھی تک اپنے مسلوں میں الجھے ھوئے ھیں۔ یا ان کو عیاشیوں بدمعاشیوں فرقہ پرستیوں میں الجھا دیا گیا ھے۔ میں جب سب کے اتحاد کی بات کرتا ھوں تو اس لئے کہ اس آخری جنگ کے موقعے پر سب مسلمانوں کو ایک ھونا پڑے گا۔
اس پتھر کی تاریح کا ایک رخ یہ بھی ہے۔
سٹون آف سکون، جس کے بارے میں یہودی عقائد کا ماننا ہے کہ یہ پتھر حضرت یعقوبؑ نے بیت الحم میں تکیے کے طور پر استعمال کیا اور آپ کو خواب میں بشارتیں دی گئیں، یہ پتھر عرصہ دراز تک سکاٹش بادشاہوں کی تاج پوشی کی رسم میں استعمال ہوتا رہا ہے جب برطانیہ نے اسے سکاٹ لینڈ سے چھین کر برطانیہ لی ملکیت بنایا تو اسکے چند سو سال بعد سکاٹش طالب علموں کے ایک گروہ نے اسے انگلینڈ سے چرا کر واپس سکاٹ لینڈ لے جانا چاہا چرانے کے عمل میں یہ پتھر ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا خیر وہ اسے دوبارہ سکاٹ لینڈ لے جانے میں کامیاب ہوگئے لیکن برطانیہ کو جب اس بات کا علم ہوا کہ پتھر سکاٹ لینڈ میں پہنچ چکا ہے تو برطانیہ نے سکاٹ لینڈ سے یہ پتھر دوبارہ اپنی ملکیت میں لے لیا ۱۸ ویں صدی کے درمیان برطانیہ اور سکاٹ لینڈ کے درمیان یہ معاھدہ طے پایا کے تاج پوشی کی رسم کے علاوہ یہ پتھر سکاٹ لینڈ کی ملکیت میں دیا جائے گا ، جب کہ جب بھی برطانیہ میں کسی بھی فرمانروا کی تاج پوشی کی رسم درکار ہوگی پتھر واپس برطانیہ میں رسم کی ادائگی کے لیے لایا جائے گا،۔

Friday, 23 October 2015

تاریخی حقائق

تاریخ میں خانہ کعبہ/مکّہ مکرمہ پر دو حملے ہوئے۔
ایک ابرہہ نے کیا۔ دوسرا یزید نے۔
یزید کی افواج نے پہلے مدینہ منورہ پر حملہ کرکے بے شمار صحابہ کرام (رض) کو شہید کیا۔ اور نام نہاد جیت کی خوشی میں تین دن تک مدینہ منورہ میں قتل عام اور لوٹ مار کی اجازت دیدی گئی۔ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ روضہ رسول (ص) پر خچر باندھے گئے جس کے باعث تین دن تک اذان نہ دی جا سکی۔

یہ جنگ یزید نے مشہور صحابی حضر عبدللہ بن زبیر (رض) اور مدینہ کے لوگوں کے خلاف لڑی۔ حضرت عبدللہ بن زبیر (رض) خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے نواسے اور حضرت اسمہ بنت ابوبکر (رض) کے صاحب زادے تھے۔
اس کے بعد مکہ مکرمہ پر حملہ کرکے خانہ کعبہ کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ یہاں تک کہ کعبہ شریف کے غلاف پر آگ لگ گئ۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی تاویلات نہیں بلکہ اہم تاریخی واقعات ہیں جو تاریخ ابن کثیر, ابن خلدون سمیت تمام تاریخی کتب میں ملاحظہ کیئے جاسکتے ہیں۔

اللّٰہ کا چیلنج

قرآن میں اللّٰہ نے انسان کو چیلنج کیا ہے کہ ۔۔
"''لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللّٰہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے" ۔ (الحج)
مکھی بنانا تو خیر بہت دور کی بات ہے لیکن چیلنج کا دوسرا حصہ کافی دلچسپ ہے کہ اگر وہ کوئی چیز لے کر بھاگ جائے تو وہ بھی واپس نہیں لے سکتے ۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ واقعی ناممکن ہے ؟
بھلا کیسے ؟ آپ کو بتاتے ہیں ۔۔۔
شائد آپ کے علم میں نہ ہو کہ مکھی دنیا کا واحد جانور ہے جو اپنی خوارک اپنے منہ میں ڈالنے سے پہلے ہی ہٖضم کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ مکھی خوراک اپنی ٹانگوں میں اٹھاتے ہی اپنے منہ سے ایک ٹیوب نکالتی ہے جسکا منہ ویکیوم کلینر کی طرح چوڑا ہوتا ہے ۔ اس ٹیوب سے وہ خوراک پر ایک خاص قسم کا کیمیائی محلول ڈالتی ہے جو فوراً اس چیز پر پھیل کر اس کے اجزا کو توڑ مروڑ دیتا ہے اور اسکو ایک محلول میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ یاد رہے کہ مکھی صرف کھانے پینے کی چیزیں لے کر بھاگتی ہے ۔
اس انتہائی پیچیدہ کیمیائی عمل کے بعد مکھی کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اس محلول کو چوس لے ۔
مکھی اپنی لے کر بھاگی ہوئی چیز کو چند ہی لمحوں میں کسی اور چیز میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ جسکو دنیا کی جدید ترین لیبارٹریز اور سارے سائنس دان مل کر بھی اپنی اصل حالت میں واپس نہیں لا سکتے ۔
" بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے"۔۔۔۔۔ یہ قیامت تک لے لیے اللّٰہ کا چیلنج ہے اللّٰہ کا انکار کرنے والوں اور تمام جھوٹے خداؤوں کے لیے

Thursday, 8 October 2015

Hero of Bhuda Bhar (PAF Base Peshawar) Captain Isfand Yar

Captain Isfand Yar Ahmed Bukhari, the young hero was leading from the front and was fighting valiantly even when hit by bullets and then he embraced shahadat at PAF Base Bhuda Bhar, Peshawar. He is our young hero who saved many lives at the cost of own. In this rescue operation, he led his troops from the front.
He has the brilliant profile  in Pakistan Military Academy.  He was also holding the appointment of Battalion Senior Under Officer (BSUO) of 1st Pakistan Battalion. He got Sword of Honor and passes out with 118 PMA. Presently, he was performing his duties in Frontier Corps KPK and he was from Jinnah Wing under whom the Wing lifted the Champion’s Trophy.  A part from illustriousness  military services he had many achievements in his civil life.
  • He was vice captain of college hockey team also played hockey in Punjab for the Under-19.
  • He was also the college chess champion, the member of college riding team and the president of biology club,
  • Associate editor of college magazine, member of board of editors and writers for five years.
 He has sacrificed his life for the future of our mother land, May Allah give passions to his family and he became the symbol of courage for our young generation.........!!!


Tuesday, 15 September 2015

humy khul k jeeny do

jis desh mien ganga behti hai
us daesh k rehny walo se
un fahji gernylo se
un syasi dalalo se
hum behad nafrat kerty hain
haan hum nafert kerty hain
kashmir k soda bazo se
chinaro ki ser zamen
ko neelam kerny walo se
haan hum nafret kerty hain
bangal ki pyari  wadi ko
laho mn dabony walo se
hum dil se nafrat kerty hai
khudkush bambaro se
sood k karobaro se
rishwat or safarish se
araz or guzarish se
hum jeena chahty hain
khushal mulak ki fizao mn
hum khul k jeena chahty hain
azad serad hawao mn
khudara hum ko jeeny do
mat nichoro lahu humara
humy khul k jeeny do
humy khul k jeeny do